Monday, January 31, 2022

عمران خان اپنے وزیر تبدیل کریں

 جب کسی عوامی نمائندے کو یہ حق حاصل ہو جائے کہ وہ بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہونے کے بعد ایسا مطلق العنان حکمران بن جائے کہ جمہور کے سوال کو گالی اور فریاد کو حریف کی چال سمجھے ، کشکول توڑنے کا دعوی کرے مگر کشکول بردار بن کر ملکوں ملکوں گھومتا پھرے ،میرٹ کے دعوے بھلا کر آؤٹ آف ٹرن بھرتیوں کووقت کی ضرورت اور مجبوری کہے، حلیفوں کے اللّوں تلّلوں پر آنکھیں اور کان بند کر لے کہ جزا و سزا کا معیار ہی بدل دے ،بیروزگاری کے واویلوں پر ڈھٹائی سے مضحکہ خیز بیانات داغے ، نقادوں کی تنقید کو اصلاح نہیں بلکہ بغاوت قرار دے ،ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کا ایسا بول بالا ہو کہ ہر طرف افراتفری ، عدم برداشت اور نفسا نفسی کا عالم ہو اور وہ میڈیا پرمعاشی خسارے کے قصے سنائے ، سرکاری نوکریوں سے بچنے کی تلقین کرے اور سرکاری اداروں کو بند کرنے کا عندیہ دے تو یقین کر لینا چاہیے کہ ’’یہ وقت گزرنے والا ہے‘‘! حکومت آزمائش کا میدان ہوتی ہے ،اﷲ پاک مشکلوں،آزمائشوں اور خدائی آفات کے ذریعے انسان کو جھنجھوڑتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرلے اور بہتر حکمت عملیاں ترتیب دے لے۔ایسے میں دور اندیش کانپ جاتے ہیں جبکہ غافل اور زبان درازجواز تراشتے ہیں اور ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا کر وقت ٹالتے ہیں جتی کہ اﷲ کا غضب نازل ہوجاتا ہے۔ایسوں کی داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔یاد رکھیں کہ آپ خلوص نیت سے جو بھی کرتے ہیں وہ اہم ہو سکتا ہے لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ آپ کچھ تو کریں جبکہ آپ سانحات کی پریس بریفنگ میں دانت نکالتے ہیں اور جب ملکی حالات و واقعات پر بات کرتے ہیں تو لطیفے اور جگتیں سناتے ہیں ۔سلطان صلاح الدین ایوبی سے پوچھا گیا کہ آپ کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا ،سلطان نے تاریخی جواب دیا کہ ’’میں ڈرتا ہوں کہ روز قیامت اﷲ تعالیٰ پوچھے گا کہ بیت المقدس غیروں کے قبضے میں تھا اور تم مسکرا رہے تھے

 ‘‘ !
اس انداز حکمرانی کو کیا کہیں کہ مری میں برف باری سے راستوں کی بندش کیوجہ سے ہلاکتیں ہوئیں جس کے ذمہ داران‘ ٹورزم ڈیپارٹمنٹ اور دیگر متعلقہ ادارے قابل گرفت ہیں لیکن اس مد میں کچھ نہیں کیا گیا اور اپوزیشن حسب عادت گمراہی پروگرام لیکر آگے بڑھ رہی ہے۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں اپوزیشن کی سرکردہ اور سب سے زیادہ واویلا کرنے والی جماعتوں نے بھی کوئی قابل قدر کردار ادا نہیں کیا اگر کسی نے کچھ کیا ہے تو اس کی ویڈیوز بنا کر عوام میں فنڈ ریزنگ اور تعاون کا دامن پھیلائے پھرتے ہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کا کردار اخلاص سے تہی دامن ہے بس ٹامک ٹوئیاں مار تے رہتے ہیں ۔ حیرت ہے کہ امدادی رقوم سمیت ایف بی آر نے ہدف سے زائد ٹیکس وصول کیے علاوہ ازیں ناجائز ٹیکسوں میں بھی اتنی ریکوریاں ہوئیں لیکن حادثے یا سانحے سے نپٹنے کے لیے کوئی جدید ٹیکنالوجی سامنے نہیں آئی ۔ہم بیلچوں سے برف ہٹا تے رہے یہی کچھ آگ لگنے پر ہوتا ہے کہ ہم پائپوں سے پانی ڈالتے رہتے ہیں ۔۔سوال تو یہ ہے کہ مشیران کیا کرتے ہیں وہ متوقع خطرات و حادثات اور انتظامات کی طرف توجہ کیوں نہیں دلاتے؟ لیکن ایساتو مہذب ملکوں میں ہوتا ہے کہ قدرتی آفات اور سانحات کو حکومتی سطح پر چیلنج سمجھا جاتا ہے اپنی تمام خداداد توانائیاں اقدامات میں صرف کر دی جاتی ہیں جیسے دنیا اومی کرون سے بچاؤ میں متحرک ہوچکی ہے مگر ہمارے انتظامات کا احوال سب کے سامنے ہے کہ کوئی اومی کرون میں مبتلا شخص دوسرے ملک سے آبھی گیا تو ہمیں پتہ نہیں چلے گا جیسا کہ پہلے پتہ نہیں چلا تھا کہ کورونا کیسے آگیا ؟مسئلہ یہ ہے کہ ہم جن کی مثالیں دیتے ہیں وہ قومیں آپسی رنجشوں اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں وقت ضائع نہیں کرتیں اور نہ وہاں فیوڈل سسٹمز ہیں کہ ذہنی غلام ہر ظلم و زیادتی پر خاموش بیٹھے رہیں بلکہ بیکار منصب داروں کو اٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینکتے ہیں کیونکہ وہاں اخلاص پر مبنی جمہوریت ہے جس میں جمہور کو احتساب کا کماحقہ حق حاصل ہے ۔خان صاحب نے وعدہ توکیا تھا کہ وہ تبدیلی لائیں گے مگر ان کا بس ہی نہیں چلتا اس پرخاموشی۔۔ معنی خیز ہے جیسے سانپ سونگھ گیا ہو بایں وجہ غریب دلبرداشتہ ہو گیاہے اور برملا نفرت کا اظہار کر رہا ہے جبکہ ترجمان کہہ رہے ہیں کہ غریب موجودہ دور حکومت میں اتناخوشحال ہوا ہے جتنا 70 برسوں میں نہیں تھا بس مخالفین کو ترقی ہضم نہیں ہو رہی یقینا اچھے دن آچکے ہیں بس دھند کیوجہ سے نظر نہیں آتے ۔ایسی عوامی طنزیہ تنقیدی پوسٹوں کیوجہ سے پی ٹی آئی سوشل میڈیا کو جکڑنے کے لیے قوانین بناتی رہتی ہے لیکن سرا ہاتھ نہیں آتا۔۔ویسے یہی وہ میڈیا ہے ناں! جس نے رائے عامہ ہموار کی اور کرسی تک پہنچایا توخان صاحب نے سوشل میڈیا کو شعور کا ذریعہ قرار دیاتھا لیکن اب لگام ڈالنا ضروری ہے کیونکہ آئینہ دکھا تاہے کچھ چھپتا نہیں !کیا آئینے توڑنے سے بد صورتی چھپ جاتی ہے ؟ کیا شعور کا گلہ گھونٹنے سے سوچ کا دھارا بدل جاتا ہے ؟ کیا سچ کا سر قلم کرنے سے جھوٹ فتح یاب ٹھہرتاہے ؟ یہیں سے تو انقلاب شروع ہوتا ہے ،یہی وہ منزل ہے ،جب ظلمت کدوں میں گھنٹیاں بجتی ہیں، بت ٹوٹ گرتے ہیں، مؤذن کی صدا بلند ہوتی ہے اور ظالم پناہ مانگتا ہے پھر ایک داستان جنم لیتی ہے جو دوسروں کے لیے عبرت ٹھہرتی ہے ۔وقت کا پہیہ تیز گھومتا ہے جس میں سب سے کم وقت حاکم کے پاس ہوتا ہے کہ وہ اقتدار کو آزمائش سمجھے اور ایسے کام کرے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں تو آپ نے عام آدمی کے لیے ابھی تک کیا کیا ہے ۔۔؟ریاست مدینہ بنانے کے دعوے کئے تھے تو کبھی کسی غریب بستی کا دورہ ہی کر لیتے کہ حضرت عمرؓ بھیس بدل کر رات کو گشت کرتے تھے تاکہ عام آدمی کی حالت سے با خبر ہو سکیں ۔غریب ریاست کا اصل چہرہ ہوتا ہے اگر وہ خوشحال ہو تو ریاست خوشحال ہوتی ہے ۔ بے ضرر تحریریں اور سوشل میڈیائی شکوے آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے البتہ غریب کی خاموش آہیں جو عرش الہی تک پہنچ رہی ہیں اس سے آپ سب کی دنیا و آخرت پچھتاوا بن جائیں گی اگر اب عام آدمی کے لیے کچھ نیا، نہ کیا گیا اس لیے عمران خان کو چاہیے کہ ایک مرتبہ اپنے مشیران کو تبدیل کر کے دیکھے شاید کے نتائج بہتر ہوجائیں اور تبدیلی آجائے

اسلام اور پاکستان کے دشمن

 پاکستان اور اسلام کے دشمن پریشان ہیں کہ دنیا کے خطرناک ترین فضائی طیارے پاکستان کے پاس ، دنیا کا خطرناک ترین ہتھیار ایٹم بم کے فارمولے اور بنانے والا بھی پاکستان ،دنیا کے خطرناک ترین جدید کروز میزائل سپر سونک میزائل جدید دفاعی نظام بھی پاکستان ، بلاسٹک میزائل اور ان تمام میزایلوں کی ٹیکنالوجی بنانے کے فارمولے یہ بھی پاکستان کے پاس اور پاکستان بنا بھی چکا ہے ۔ جدید اسٹیلتھ ٹیکنالوجی ۔ تمام لیزر ٹیکنالوجی۔دنیا میں تمام وہ خطرناک ترین ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی بھی پاکستان کے پاس اور پاکستان بنا بھی چکا ۔ دنیا کی خطرناک ترین جنگیں لڑنے والا بھی پاکستان۔گوریلا وار کا سلطان بھی پاکستان۔ففتھ جنریشن وار ہائبریڈ وار کا سلطان بھی پاکستان ۔ دنیا کی خطرناک ترین خفیہ ایجنسی مارخور ISI بھی پاکستان کے پاس ۔ دنیا کی خطرناک ترین افواج بھی پاکستان کے پاس ۔ دنیا میں جنگی حکمت عملی کے ماہر ترین خطرناک ترین دماغ پاک فوج کے وہ بھی پاکستان کے پاس۔ پوری دنیا حیران اور پریشان ہے کہ ایک چھوٹا سا پاکستان اور اتنے سارے اس کے دشمن ، اس کے باوجود سارے دشمنوں کو تگنی کا ناچ نچانے والا بھی پاکستان ۔ بیرونی دشمنوں کی طرف سے مسلط کردہ اندرونی دہشت گردی کی جنگ جو کہ دنیا کی خطرناک ترین جنگ سمجھی جاتی ہے ۔ اس میں بھی دشمنوں کو شکست دے کر یہ جنگ جیتنے والا بھی پاکستان ۔ اس طرح کی جنگ آج تک جس پر بھی مسلط ہوئی ہے وہ جنگ نہیں جیت سکتا سوائے پاکستان کے یہ اعزاز کسی کے پاس نہیں ن۔ ہر وہ جدید ترین ہتھیار دنیا کے پاس ہوتا ہے اور کچھ عرصے بعد وہی جدید ترین ہتھیار اس سے بھی اچھی کوالٹی کا پاکستان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ یہی وہ اﷲ کا راز ہیدنیا پریشان ہے ۔ ایک چھوٹا سا پاکستان ہے اور مقابلے دشمن سارے ہی فیل ہیں ۔ تمام عالم کفر سے لڑ گیا ۔ سو یہ جنگ ظلم کے خلاف تھی ۔ اسلام کے خلاف تھی ۔ وطن کے دشمنوں کے خلاف تھی ۔ سو میں لڑ گیا۔ پاک فوج کے مقابلے میں۔دشمن ممالک کی ایک کروڑ کے لگ بھگ آرمی بنتی ہے جو کہ پاک فوج کے مقابلے میں 95 فیصد زیادہ ہیں۔اسی طرح دیگر تمام ہتھیاروں میں فضائیہ میں بحریہ میں ۔ پاک فوج سے 95 فیصد زیادہ ہیں۔ آئی ایس آئی بمقابلہ ! 20 دشمن خفیہ ادارے , تمام خفیہ دشمن اداروں کے فنڈ کے آگے آئی ایس آئی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتا۔ دشمن خفیہ اداروں کے مقابلے میں ۔ لیکن پوری دنیا گواہ ہے کہ پاک فوج۔ الحمدﷲ فاتح ہیں ہر میدان میں۔ موجودہ صورتحال میں جنگی لحاظ سے پاکستان کا مقابلہ جن طاقتوں سے ہے ان کے مقابلے میں پاکستان پانچ فیصد بھی نہیں اور دشمن جتنے بھی ہیں ۔ پاکستان سے ٹکرانے کے بعد کچھ تو ٹوٹ گئے اور کچھ ٹوٹنے جارہے ہیں ۔پاکستان مستقل جنگیں لڑ رہا ہے ۔ پوری دنیا میں پاکستان غریب کمزور ممالک کا ساتھ دے رہا ہے ۔ پوری دنیا میں ظلم کرنے والوں کا ہاتھ روک رہا ہے ۔ انسانیت اور مسلمانوں کے قاتلوں سے انتقام لے رہا ہے۔ دنیا کی تاریخ کی خطرناک ترین جنگیں پاکستان لڑ رہا ہے ۔ پاکستان اپنے دشمن مدمقابل ممالک کے مقابلے میں معاشی طور پر بھی کچھ نہیں۔ جس نوعیت کی پاکستان جنگیں لڑ رہا ہے اس نوعیت کی جنگیں پاکستان سے ہزاروں گنا زیادہ پاور فل ملک نا لڑ سکے ۔ پاکستان واحد ملک ہے جو ایک ہی وقت میں مختلف محاذوں پر دشمنوں سے نبرد آزما ہے اور اﷲ پاک ہر قدم فتح و کامرانی عطا کر رہا ہے ۔ اسی افواج کے ذریعے اﷲ پاک ہمیں کامیابیاں دے رہا ہے ۔جو اس وطنِ پاکستان کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اور کچھ لوگ اپنی ہی افواج کے متعلق ، ملک پاکستان اور اسلام کے خلاف اپنا زہر اگل رہے ہیں ۔ میں یونہی دستِ گِریباں نہیں زمانے سے ۔ میں جس جگہ پہ کھڑا ھوں کسی دلیل سے کھڑا ھوں ۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو ۔ یہ دشمنانان اسلام کے اوچھے ہتھکنڈے ہیں ۔افواج پاکستان میں سیکنڈلیفٹننٹ، سے لیفٹننٹجنرل بننے تک پچیس تیس سال کی سروس ہوچکی ہوتی ہے ۔ جس میں سیاچن کی خون جما دینے والی سردی سے لے کر بلوچستان کے پہاڑوں پر آگ برساتی دھوپ ، سمندروں ، دریاں ، صحرا و ریگستانوں تک کئی محاذوں پر اپنی جوانی کے ایام وطن کے دفاع میں گزار چکا ہوتا ہے ۔ چند ضمیر فروش وطن دشمن فوج مخالف عناصر مکارانہ انداز اپنائے ہوئے یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ ہم تو پاک فوج کے سپاھیوں یعنی عام جوانوں کے خلاف نہیں ہیں ہم تو جرنیلوں کے خلاف ہیں ۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاک فوج میں قربانیاں دیتے وقت یہ کوئی تخصیص نہیں ہوتی کہ وطن کی حفاظت کے لیئے سپاھی قربانی دیں یا جرنیل ہر ایک دفاع وطن میں ہمہ وقت مستعد تیار کھڑا ہے ۔ پاک فوج دنیا کی واحد آرمی ہے جس نے نظریاتی و جعفرافیائی سرحدوں کی حفاظت ملکی امن و امان کے قیام دہشتگردی کے خاتمہ کے لیئے دنیا میں سب سے زیادہ اپنے آفیسروں کی قربانی دی ہے ۔ سیکنڈ لیفٹننٹ سے لیکر لیفٹننٹ جنرل رینک کے اس کے شہدا ہیں ۔ سیکنڈ لیفٹننٹ عبدالمعید شہید سے لیفٹننٹ جنرل مشتاق بیگ شہید تک میرے پاس پاک فوج کے سینکڑوں آفیسروں کے نام ہیں ۔ جو اس پاک دھرتی پر قربان ہوگے ہیں ۔ جنہوں نے ارض پاک کی عزت و حرمت کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے.اﷲ تعالی ہمیں دشمن کے ان اوچھے ہتھکنڈوں کو سمجھنے اور ناکام بنانے اورہر محاذ پر اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی توفیق دے. آمین ۔ افواج پاکستان نے وطن پرستی اور قرآن پاک کی تعلیم کو اچھی طریقے پڑھا اور اسے سمجھا ہے ۔ اسی لیے اﷲ پاک نے ان کے مقدر میں کامیابی لکھ رکھی ہے ۔مائیل ہارٹ نے اپن تاب سو عظیم شخصیات و لھنے میں 28 سال ا عرصہ لگایا اور جب اپن تالیف و ممل یا ۔ تو لندن میں ایک تقریب رونماء منعقد ۔ جس میں اس نے اعلان رنا تھا ہ تاریخ سب سے عظیم شخصیت ون ہے؟ جب وہ ڈائس پر آیا تو ثیر تعداد نے سیٹیوں ، شور اور احتجاج ے ذریعے اس بات و اٹنا چاہا تا ہ وہ اپن بات و ممل نہ ر سے۔ پھر اس نے ہنا شروع یا کہ ایک آدم چھوٹ س بست مہ میں ھڑے ہو ر لوگوں سے ہتا ہے میں اﷲ ا رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم ہوں میں اس لیے آیا ہوں تاہ تمہارے اخلاق و عادات و بہتر بنا سوں تو اسکی اس بات پر صرف 4 لوگ ایمان لائے جن میں اس بیو، ایک دوست اور 2 بچیتھے۔ اب اس و 1400 سو سال گزر چے ہیں۔ مرورِ زمانہ ہ ساتھ ساتھ اب اس ے فالورز تعداد ڈیڑھ ارب سے تجاوز ر چ ہے اور ہر آنے والے دن میں اس ے فالوروز میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ممن نہیں ہے ہ وہ شخص جھوٹا ہے یونہ 1400 سو سال جھوٹ ا زندہ رہنا محال ہے اور س ے لیے یہ بھ ممن نہیں ہے ہ وہ ڈیڑھ ارب لوگوں و دھوہ دے سے۔ ہاں ایک اور بات! اتنا طویل زمانہ گزرنے ے بعد آج بھ لاھوں لوگ ہمہ وقت اس ناموس خاطر اپن جان تک قربان رنے ے لیے مستعد رہتے ہیں. یا ہے وء ۔ ایک بھ ایسا مسیح یا یہود جو اپنے نب ناموس خاطر حت ہ اپنے رب خاطر جان قربان رے ؟ بلا شبہ تاریخ وہ عظیم شخصیت حضرت محمد ﷺ ہیں۔ مائکل ھارٹ کے یہ الفاظ کہنے تھے کہ اس ے بعد پورے ہال میں اس عظیم شخصیت اور سید البشر ﷺ ہیبت اور اجلال میں خاموش چھا گء ۔ یہ ہے ہمارے پیارے نبی ﷺ کی اور اسلام کی طاقت ۔ پاکستان اﷲ رب العزت کے رازوں میں سے ایک راز ہے ۔ قدر کریں ۔ مملکت خدادا پاکستان کی ۔پاکستان زندہ بادپاک افواج پائندہ آباد

Sunday, January 30, 2022

حضرت اابوبکرصدیق رضیﷲ عنہ کے فضائل

 کتاب اوراق غم کے صفحہ ۲۲۰ پرلکھاہے کہ حضرت اابوبکرصدیق رضی ﷲ عنہ کااسم شریف عبدالکعبہ تھا ۔جب آپ رضی اﷲ عنہ شرف اسلام سے مشرف ہوئے توآپ کااسم شریف عبداﷲ رکھاگیااورابوبکرصدیق کنیت ۔علاوہ اس کے عتیق، صدیق آپ نے لقب پائے۔صدیق کالقب حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کوعطافرمایا۔


آپ رضی اﷲ عنہ نے کبھی بت کوسجدہ نہ فرمایا۔امام احمدقسطلانی شرح بخاری میں نقل فرماتے ہیں کہ جب آپ کی عمرمبارک ۴ سال کی ہوئی توآپ کے باپ عثمان جن کی کنیت ابوقحافہ ہے انہیں بت خانہ میں لائے اورکہا یہ ہیں تمہارے بلندوبالاخداانہیں سجدہ کرو۔ آپ بت کے سامنے تشریف لے گئے اورفرمایامیں بھوکاہوں مجھے کھاناکھلادے،میں ننگاہوں مجھے کپڑے پہنا،جب کوئی جواب نہ ملااورحقیقت میں جواب ملتابھی کیاکیونکہ بت توبت ہی ہوتاہے۔ آپ نے فرمایا میں پتھرمارتاہوں اگرتوخداہے تواپنے آپ کوبچا۔اس کاجواب بھی نہ ملاتوآپ نے ایک پتھراٹھاکراس کے مارا، وہ بت گرگیااورقوت خدادادکی تاب نہ لا سکا ۔ باپ نے یہ دیکھ کرصدیق پرغصہ کیااوررخسارمبارک پرتھپڑامارا۔پھروہاں سے آپ کی والدہ کے پاس لائے اورتمام واقعہ گزشتہ سنایا ۔انہوں نے کہا اسے اس کے حال پرچھوڑدو۔جب یہ پیداہواتھا توغیب سے میرے کان میں یہ آوازیں آئیں تھیں۔ اے اﷲ کی سچی لونڈی تجھے اس آزادبچے کی بشارت ہو جو آسمانوں میں صدیق ہے اورمحمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کایارورفیق ہے۔مجھے معلوم نہیں کہ وہ محمد(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم )کون ہیں اورکیامعاملہ ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کوحضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیاتوروح الامین درباروالامیں حاضرہوئے اورعرض کی ابوبکرکی ماں نے سچ کہا اوروہ صدیق ہیں۔ آپ جب سے شرف خدمت سے مشرف ہوئے کبھی جدانہ ہوئے یہاں تک کہ بعدوفات بھی پہلوئے محبوب میں آرام فرماہیں۔

ایک حدیث میں ہے کہ ایک بارحضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں دست اقدس میں حضرت صدیق کاہاتھ لیااوربائیں میں حضرت عمرکاہاتھ ۔ پھر فرمایااسی طرح ہم قیامت میں اٹھیں گے۔ امام ابن عساکرامام زہری سے راوی ہیں صدیق کے فضائل سے ایک یہ ہے کہ انہیں کبھی وجودالٰہی میں شک نہ ہوا ۔ امام ابوالحسن اشعری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ابوبکرہمیشہ منظورنظرالٰہی رہے۔

امام ابوحنیفہ النعمان رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ابوبکرصدیق آزادبالغ مردوں میں پہلے مسلمان ہیں اورعلی نوعمروں میں اورخدیجہ اسبق الایمان عورتوں میں ہیں۔ حضرت صدیق خدمت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں قبل ازاسلام بھی اکثرحاضرہوتے تھے۔ حتیٰ کہ حضرت خدیجہ عقدمیں بھی آپ ہی زیادہ کوشاں رہے۔آپ کے اسلام کاقصہ یوں ہے کہ ایک بارآپ نے بہ نیت تجارت سفرشام کاعزم کیا۔ وہاں جب پہنچے توایک خواب دیکھا کہ آسمان سے بام کعبہ پر ایک نورگرا۔ پھروہ نوراہل مکہ کے گھروں میں جانے لگا۔آپ کے گھرمیں جب وہ آنے لگاتوآپ نے دروازہ بندکردیااورآنکھ کھل گئی۔صبح اس کی تعبیرلینے ایک یہودی عالم کے پاس گئے ۔اس نے ٹال دیا۔آپ خاموش ہوگئے مگرتسکین نہ ہوئی۔ دوبارہ پھرشام تشریف لے گئے توراہ بحیرہ راہب سے ملاقات ہوئی آپ نے وہ خواب اس سے کہا۔اس نے کہایہ خواب بہت مبارک ہے تم کون ہواورکہاں سے آئے ہو۔آپ نے اپناسب حال کہہ دیابحیرہ نے کہا تمہارے ملک میں ایک رسول الٰہی تشریف لائے گا۔ زندگی میں تم اس کے وزیراوربعدوفات اس کے جانشین بنوگے۔ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صدیق کوتبلیغ اسلام فرمائی توصدیق نے نبی ہونے کاثبوت مانگاآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایابحیرہ راہب سے جوخواب دیکھ کرتم نے جواب لیاتھا میں اس کی تعبیرہوں صدیق یہ سنتے ہی جھک گئے اورکلمہ شہادت پڑھ کردائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔سیرۃ ابن ہشام میں ہے کہ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایامیں نے جس کواسلام کی طرف بلایااس نے کچھ نہ کچھ ترددکرکے قبول اسلام کیامگرصدیق نے علی الفورتصدیق کرلی۔ آپ کے پاس وقت قبول اسلام چالیس ہزاردرہم نقد تھے آپ نے وہ سب مسلمانوں پرنچھاورفرمائے ۔یہی وجہ ہے کہ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایامجھے کسی کے مال نے اتنافائدہ نہ پہنچایاجوفائدہ ابوبکرکے مال سے پہنچا۔ بخاری و مسلم شریف میں یہی روایت ہے کہ مسلمانوں میں صدیق کے مال اوررفاقت کامجھ پربہت احسان ہے چنانچہ بلال حشی کوپنجہء امیہ بن خلف سے آپ نے چھڑایا علاوہ ازیں جس قدرنحیف ونزارمسلمان ظلم وستم قریش سے تنگ تھے آپ نے آزادکرائے۔آپ تبلیغ اسلام کے لیے حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست فرماتے کہ کفارقریش کی ایذادہی کی کچھ پروانہیں۔ اعلانیہ عبادت کرناچاہیے اوربے دھڑک تبلیغ ہونی چاہیے۔ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بحکم الٰہی صدیق کوخانہ کعبہ میں لائے آپ نے دیکھاکہ رؤسائے قریش جمع ہیں۔ آپ کھڑے ہیں اورخطبہ نہایت فصیح وبلیغ پڑھ کرتوحیدکی تعریف شرک وبت پرستی کی مذمت فرمائی۔ کفارقریش سنتے ہی جل گئے اورصدیق پربگڑکرجھپٹ پڑے۔ آپ کواس قدرماراکہ چہرہ زیبازردہوگیااورآپ بے ہوش ہوگئے۔ آپ کے اعزاواقرباگھرلائے بڑی کوششوں سے جب ہوش ہواتوشربت پیش کیافرمایامیں ہرگزشربت نہ پیوں گاجب تک شربت دیدارمحبوب سے سیراب نہ ہوجاؤں۔جب رات بہت گزر گئی راستہ کفارسے خالی ہوگیاتوصدیق کوپوشیدہ طورسے خدمت حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں لے کرپہنچے۔جب آپ نے حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کوصحیح وسالم دیکھ لیاتوفرمایالاؤاب شربت پی لوں گا۔ کیونکہ اب میری جان میں جان آئی۔

بخاری شریف میں حضرت عروہ بن زبیرسے روایت ہے کہ ایک روزحضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نمازمیں مشغول تھے عقبہ بن ابی معیط خبیث نے ایک موٹی چادرحضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے گلے میں ڈال کراس روزسے کھینچی کہ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کاتنفس مبارک رکنے لگا۔صدیق دوڑے اور للکار کر فرمانے لگے۔ کیااس ہستی مقدس کومارناچاہتے ہوجوایک رب حقیقی کے حضورمیں سرنیازعالم جھکارہاہے اورباآنکہ وہ تمہیں روشن معجزات بھی دکھارہاہے

طالب علم کے مسائل اور اُن کا حل

 

سن المآب, Kohat)

کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں سب سے اہم کردار پڑھی لکھی اور جوان نسل کا ہوتا ہے. اگر معاشرہ پڑھا لکھا ہوگا تو تمام اچھی عادات اس میں خودبخود آجائیں گی. لیکن اگر نوجوان نسل کو تعلیم حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے تو ایک اچھے ماحول کی توقع رکھنی بیکار ہے. دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں لگے رہتے ہیں. اور جوان ہوتی نسل کو تعلیم یافتہ بنانے میں لگے ہیں. مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں باقی تمام شعبوں کی طرح تعلیم کا شعبہ بھی زبوں حالی کا شکار ہے. کسی بھی ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے نوجوانوں کو مفت تعلیم مہیا کرے. مگر افسوس کے ساتھ ہمارے ہاں تعلیم دن بہ دن مہنگی ہوتی جا رہی ہے. جو غریب بچوں سے پڑھنے کا حق چھین رہی ہے. مہنگائی کے اس ہوشربا دور میں جہاں دو وقت کی روٹی مشکل سے میسر ہے وہاں غریب والدین کے لیے بھاری فیسیں دے کر بچوں کو پڑھانا کافی مشکل ہوگیا ہے. اگر پاکستان میں رائج تعلیمی نظام پر بات کی جائے. تو عام طور پر پاکستان میں رٹا سسٹم عام ہے. جسکی وجہ سے طالب علموں کی صلاحیتیں کھل کر سامنے نہیں آتیں. غیر ضروری چیزوں پر توجہ دی جاتی ہے. اور ضروری چیزوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے. اگر موجودہ دور کی بات کریں تو جب سے کرونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے. تب سے مشکلات اور بھی ذیادہ ہوگئی ہیں. چونکہ اسکول بند ہیں. اس لیے آن لائن سسٹم کے ذریعے پڑھائی جاری ہے جو کہ خاص طور پر پاکستانی طلبہ کے لیے ایک نیا تجربہ ہے. جس کی اکثر طلباء کو سمجھ ہی نہیں ہے. جو انہیں پڑھائی سے بیزار کر رہی ہے. آن لائن پڑھائی دور دراز رہنے والے طلبا کے لیے بھی ایک بڑا مسئلہ ہے. جہاں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں. سگنلز کے مسئلے پر بھی اکثر طلبہ نالاں دکھائی دیتے ہیں. کیونکہ اس طرح اساتذہ کا لیکچر سر پر سے گزر جاتا ہے. اس طرح بہت سے طلبہ اس بات پر بھی احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ آن لائن پڑھائی کی طرح آن لائن امتحان بھی لیے جائیں. حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر ان مسائل کا حل تلاش کرے. بہت سے طلباء تو کلاس لیتے ہی نہیں ہیں. حالیہ دنوں میں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں طلباء کی اکثریت سائنس اور ریاضی میں کمزور ہے. میرے خیال میں اس کی وجہ بنیادی تعلیم کے بجائے نصابی تعلیم پر زور دینا ہے. جو یقیناً طلباء کی صلاحیتوں کو کم کر دیتا ہے. اساتذہ کو بھی چاہیے کہ پرانے طریقے چھوڑ کر پڑھائی کے انداز میں جدت لائیں. کورس سے ہٹ کر طلباء کو مختلف طریقوں سے سکھایا جائے. اس سلسلے میں حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ نجی و سرکاری کی تفریق کو ختم کرے تاکہ قوم کے یہ معمار کل کو اس ملت و قوم کا نام زندہ رکھ سکیں..

خاموشی اختیار کرو

 میرے استاد محترم ابن الحسن عباسی مرحوم نے ایک موقع پر فون کیا اور ایک مختصر جملہ کہا. " امیرجان خاموشی سے اپنے ادارے کے لئے پلاننگ کرو، مخیر حضرات پیدا کرو، فیس بک میں شور نہ ڈالو". استاد محترم کے یہ الفاظ میرے لیے حکم کا درجہ رکھتے تھے، اس پر اسی دن سے عمل شروع کیا یعنی شور ڈالنا چھوڑ دیا.


میں اپنے بہت سارے معاملات میں، اپنے بھائی جیسے دوست ذیشان پنجوانی سے مشاورت کرتا ہوں. مشورہ اس سے کیا جاتا ہے جو امانت داری سے کام لے، امانت داری سے وہی کام لے سکتا ہے جو امانت دار اور مخلص ہو اور مشورہ دینے کا اہل بھی ہو یعنی اس فیلڈ کا ماہر بھی ہو."المستشار موتمن" (ترمذی)، جس شخص سے مشورہ کیا جاتا ہے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ امانت دار ہو، کام کی نوعیت کو جانتا بھی ہو، مشورہ لینے والے شخص کے راز کو کسی پر منکشف نہ کرے. راز فاش کرنا ایک طرح کی خیانت ہے اور ایک مخلص دوست اور مسلم خیانت نہیں کرسکتا.نہ اس سے اس کی توقع کی جاسکتی ہے.

ایک مالیاتی مشکل کا ذیشان بھائی سے عرض کیا تو انہوں نے کچھ ممکنہ صورتیں بتا دیں، ان سب پر بظاہر عمل کرنا ممکن نہیں تھا، پھر انہوں نے ایک مشورہ دیا جو بظاہر ٹھیک نہیں مگر مجبوری کے عالم میں اس پر کراہت کیساتھ عمل کیا جاسکتا ہے. انہوں نے کہا " ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت نہیں، خاموشی سے ایسا کرو، اور ممکنہ حد تک، جتنی جلدی ہوسکے، جان چھڑاؤ".

میں نے اپنی ان چند مشکلات کو کئی احباب کے سامنے رکھا، شاید ان میں بہت سارے احباب نے مشکل میں مدد تو درکنار برا بھی منایا اور بعض نے طنز بھی کیا.

آج ایک حدیث پر نظر پڑی تو مجھے اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا. حدیث ملاحظہ کیجے:
" اسْتَعينوا على قَضاءِ حَوائجِكُم بالكِتْمانِ" (مجمع الزوائد) یعنی کسی کام کی تکمیل اور تدبیر خاموشی سے کرنی چاہیے. ویسے ہی ان امور اور مشکلات کی تشہیر کرنے اور ہر ایک سے مشاورت کرنے سے بہت ساری خرابیوں کے رونما ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور مزید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اور بندہ ڈسٹرب بھی ہوسکتا ہے.

ان مختصر احادیث کی روشنی اور مخلص احباب کی نصیحتوں کو مدنظر رکھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنے مستقبل کے پلاننگ، اپنے امور میں مشاورت اور اپنی مشکلات کا اظہار، ہر ایک کے پاس نہیں کرنا چاہیے بلکہ انتہائی خاموشی کے ساتھ تدبیر کرنا چاہیے اور اگر مشورہ لینا ضروری ہو تو انتہائی امانت دار، ماہر اور مخلص احباب سے مشورہ لینا چاہیے.

احباب کیا کہتے ہیں؟

پاکستانی کرکٹ ٹیم سے طوفان کیسے ٹلے گا

 چھ سال میں تنکا تنکا جوڑ کر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے جو آشیانہ بنایا تھا، اب اچانک کسی ریت کے محل کی مانند منہدم ہوتا نظر آ رہا ہے اور اس کے ساتھ وہ تمام تر امیدیں بھی دم توڑ رہی ہیں جو پاکستان کرکٹ شائقین اس لبالب بھرے ہوم سیزن سے جوڑے بیٹھے تھے۔


جمعے کی سہہ پہر سے اب تک کی طوفان خیزی میں سارا کیا دھرا کسی سیلابی ریلے کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ نیوزی لینڈ کا دورہ اس سفر کا اہم ترین سنگِ میل ہوتا اگر بخوبی انجام پا جاتا، مگر یہ ہو نہ پایا۔

اور پھر کیویز کی پیروی کرتے ہوئے اب انگلش کرکٹ بورڈ نے بھی آئندہ ماہ کے دورے سے انکار کر چھوڑا ہے اور پی سی بی کی ساری جدوجہد ایک ہچکولے کے ساتھ واپس اُسی کھائی میں جا گری ہے جو 2009 میں سری لنکن ٹیم پہ حملے کے بعد اس کا مقدر بنی تھی۔

پی سی بی کا دکھ سوا ہے کہ 2009 کے برعکس اس بار تو کچھ ایسا ہوا بھی نہیں جو ایسی بے مہری کا حق دار ٹھہرتا۔ پاکستان بہت تسلسل کے ساتھ انٹرنیشنل کرکٹ کی میزبانی کرتا چلا آ رہا تھا اور سال کے اوائل میں جنوبی افریقہ جیسی ہائی پروفائل ٹیم کا دورہ اس قطعیت کا اظہار تھا کہ اب دن پھر چکے ہیں۔

لیکن اب یہ سارا سفر ایک بار پھر سے شروع کرنا ہو گا اور اب کی بار اس کی قیادت کوئی معاملہ فہم منتظم نہیں کر رہا بلکہ زمامِ کار ایک جارح مزاج سابق کرکٹر کے ہاتھ میں ہے اور خوش گفتاری اور نرم ڈپلومیسی سے طے ہونے والے معاملات کا مستقبل ڈانواں ڈول نظر آ رہا ہے۔

کیویز کا عین آخری لمحے انکار بلاشبہ سبھی کرکٹ شائقین بالخصوص پاکستان کے لیے ایک دل شکستہ لمحہ تھا اور جذبات کا عود کر آنا بالکل معمول کی بات ہے مگر ایک عام شائق کے تاثرات اور ایک کرکٹ بورڈ چئیرمین کے الفاظ و انداز میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔

رمیز راجہ نے اس سقوط کے فوری بعد ٹوئٹر پہ یہ کہا کہ اب نیوزی لینڈ ہمیں آئی سی سی میں سنے گا۔ ان کا یہ بیان اپنے ہم وطنوں کی داد اور واہ واہ تو سمیٹ سکتا ہے مگر ایسے بیانیے کا کسی بین الاقوامی فورم پہ کامیاب ہونا خاصا مخدوش ہے۔

بطور سابق کرکٹر اور جہاندیدہ مبصر رمیز راجہ یہ تو یقیناً جانتے ہی ہوں گے کہ آئی سی سی کی 'دھمکی' یہاں قطعی بے جواز ہے کیونکہ جب بات سیاسی معاملات اور کرکٹنگ اقوام کے دو طرفہ تعلقات کی آتی ہے تو آئی سی سی اتنا ہی بااختیار رہ جاتا ہے جتنا کشمیر کے مسئلے پہ اقوامِ متحدہ۔

دو طرفہ تعلقات کے معاملے میں آئی سی سی کی قدر کا اندازہ یہاں سے کیجیے کہ جب ٹیسٹ چیمپئین شپ کا ماڈل طے ہونے جا رہا تھا تو پہلے پہل تجویز تھی کہ سبھی ممالک کم از کم ایک دو طرفہ سیریز ضرور کھیلا کریں گے۔ گویا انڈیا پاکستان کے خلاف نہ کھیلنے کی صورت میں پوائنٹس گنوا بیٹھتا۔

پاکستانی شائقین اس ماڈل کے بارے خاصے پرجوش تھے مگر صرف اسی ایک نکتے پہ بات اٹک گئی اور پورا چیمپئن شپ ماڈل ہی کھٹائی میں پڑ گیا تا آنکہ آئی سی سی کو سارا ماڈل پھر سے بنانا پڑا اور اس میں یہ شرط ختم کرنا پڑی کہ ہر ملک کو چیمئین شپ سائیکل میں ہر دوسرے کے خلاف کم از کم ایک سیریز کھیلنا لازم ہے۔

سو رمیز راجہ کا یہ کہنا کہ نیوزی لینڈ کس دنیا میں جی رہا ہے، کچھ عجیب سا لگتا ہے کیونکہ زمینی حقائق کے تحت پاکستان کو یہ طے کرنا چاہیے کہ وہ کس دنیا میں جی رہا ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ پی سی بی نے اس جلاوطنی کے اثرات میں 20 کروڑ ڈالرز سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے اور اگر یہ معاملہ پھر صفر سے شروع کرنے پہ آ گیا تو انہی اعدادوشمار میں اضافہ بھی ہو گا۔

لیکن پاکستان کو حقیقت کی دنیا میں واپس آنا ہو گا۔ مستحکم دو طرفہ تعلقات ہمیشہ برابری کی سطح پر ہی استوار کیے جا سکتے ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس برابری کا مطالبہ غلط وقت پہ کیا ہے۔

پاکستان کو یہ مطالبہ تب کرنا چاہیے تھا جب کووڈ کے ہنگام انگلش کرکٹ بورڈ دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور پاکستان سے تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کی درخواست کر رہا تھا۔

تب پی سی بی نے صرف دو ٹی ٹوئنٹی میچز کے لالچ میں پورے ایک مہینے کا قرنطینہ بھی گزارنے پہ کیوں رضامند ہوا؟

کیا اس ڈیل میں کسی بھی زاویے سے برابری کا عنصر شامل تھا؟ درحقیقت پی سی بی پچھلے پانچ سال سے ہر سال انگلینڈ کا دورہ کرتا آ رہا ہے جس کے جواب میں پاکستان کو ایک بھی ہوم سیریز نہیں ملی۔ یہ کیسا برابری کا رشتہ ہوا بھئی؟

اس سال کے آغاز میں دورہ نیوزی لینڈ میں جب پاکستانی کھلاڑیوں کو نہ چارٹرڈ فلائٹ ملی نہ ہی الگ ہوٹل، اور بات جب کرونا پروٹوکولز کی ہوئی تو کیوی وزیرِ صحت نے پاکستانی ٹیم کو واپس بھیجنے کی دھمکی داغ دی جو سفارتی آداب کے بھی خلاف تھی۔

اگر پی سی بی برابری چاہتا تھا تو احتجاجاً ٹیم واپس کیوں نہ بلوا لی گئی؟

اسی منسوخ شدہ دورۂ نیوزی لینڈ کی مثال لے لیجیے کہ صرف ان کے آنے کی خوشی میں ہی پی سی بی نے کیویز کو قرنطینہ سے استثنیٰ دے دیا۔ پچھلے دو سال میں پاکستان پہ تو کسی بھی میزبان ملک نے ایسی کرم نوازی نہیں کی کہ اسے قرنطینہ سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہو۔

ٹیم اور شائقین سے رمیز راجہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم نمبر ون ہو جائیں تو ہر ٹیم ہم سے کھیلنا چاہے گی۔ گو سننے میں بہت بھلا لگتا ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ جب پانچ سال پہلے پاکستان ٹیسٹ نمبر ون ٹیم بنا تھا، تب بھی اسے دوبئی اور شارجہ میں ہی کیوں کھیلنا پڑ رہا تھا؟

ثانیاً یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ کرکٹ ہی کیا، کسی بھی شعبے میں دوطرفہ تعلقات کی برابری کوئی مروت، لحاظ اور وضع داری جیسے اخلاقی اصولوں کی بنیاد پہ نہیں پنپتی بلکہ اس بنیاد پہ کہ کس کا 'کھیسہ' کتنا بھاری ہے۔

انڈیا اس کی سب سے اچھی مثال ہے۔ ٹاپ کرکٹ بورڈز کی یہ جرات نہیں ہوتی کہ آئی پی ایل کے دوران میں کسی بھی قسم کی دوطرفہ کرکٹ کروا پائیں۔

رواں سال جب جنوبی افریقہ نے آسٹریلوی دورے کی منسوخی کے بعد پاکستان کو ایک ہنگامی سیریز کے لیے مدعو کیا تو دورے کے عین بیچ ڈیوڈ ملر اور کگیسو ربادا جیسے آئی پی ایل سٹارز قومی کرکٹ چھوڑ کر آئی پی ایل کھیلنے چلے گئے تھے۔

سو، ایسے حالات میں برابری کی بات خاصی مضحکہ خیز نظر آتی ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ پاکستان اس صورتِ حال سے نکل کیسے سکتا ہے؟

کرکٹنگ پیرائے میں تو اس کا کوئی تشفی بخش جواب موجود نہیں ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ سیاسی ہے اور اسے صرف سیاسی طریقے یعنی نرم گوئی اور ڈپلومیسی سے سلجھانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ کرکٹ کی دنیا میں اس وقت حکومت اس انڈین بورڈ کی ہے جو پاکستان کا روایتی حریف ہے۔

پاکستانی شائقین کے ایک بڑے طبقے کا یہ موقف بھی خاصا دلچسپ ہے کہ پاکستان کیویز کے ساتھ دوطرفہ کرکٹ کا بائیکاٹ کر دے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب پہلے ہی پی سی بی اپنی زیادہ تر کرکٹ سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور زمبابوے جیسی ٹیموں کے خلاف کھیل رہا ہے تو ایسے میں انڈیا کے بعد ایک اور ٹاپ کوالٹی سائیڈ کے خلاف کرکٹ سے محروم ہونا پی سی بی کے لیے کون سی سودمندی لائے گا؟

ایسے میں صرف دو ہی حل بچتے ہیں۔ اول یہ کہ پاکستان آئی سی سی میں اپنے جیسے کمزوروں کی آواز اٹھانے کے لیے کوئی الگ بلاک بنائے جہاں انڈیا کے ستم رسیدہ دیگر بورڈز کو ساتھ ملایا جائے اور مذاکرات کی میز پہ اپنی قوت ظاہر کی جائے۔

آئی سی سی کو قانون سازی پہ مجبور کیا جائے کہ اگر کوئی ٹیم کسی بھی وجہ سے دورے کے بیچ کرکٹ کھیلنے سے انکاری ہوتی ہے تو ون ڈے سپر لیگ کے پوائنٹس کی صورت میں اسے سزا دی جائے۔

اگر تاریخی پیرائے میں دیکھا جائے تو ایسا کوئی بلاک بننا حقیقت نظر نہیں آتا۔ بگ تھری کے قصے کو ہی یاد کر لیجئے تو وہاں پاکستان کے پاس نادر موقع تھا کہ بھلے شکست خوردگان کا سہی، مگر ایک الگ بلاک بنا سکتا تھا۔ لیکن وہاں انڈیا نے آٹھ دوطرفہ سیریز کا ایسا لالی پاپ تھمایا کہ نجم سیٹھی جھٹ ووٹ ڈال آئے۔

دوسرا اور حقیقت پسندانہ حل یہ ہے کہ کرکٹ کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا جائے اور مثبت کرکٹ ڈپلومیسی کا آغاز کیا جائے۔ بارہا پہلے بھی ایسا ہو چکا کہ جب پاک انڈیا تعلقات کو نرم کرنا ہو تو معاملہ کرکٹ سیریز سے ہی شروع ہوتا ہے۔

اب کی بار خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ پاکستان اور انڈیا دونوں کرکٹ بورڈز کے سربراہان ماضی کے ہمعصر کرکٹرز ہیں۔

گنگولی اور رمیز راجہ کی موجودگی کے علاوہ روشن بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی سربراہی ایک ایسے سابق کرکٹر کے ہاتھ میں ہے جو بارڈر کے اس پار بھی ایک غیر متنازعہ کرکٹ ہیرو ہیں۔

اگر پاک انڈیا کرکٹ تعلقات کوئی نیا موڑ لے سکیں تو دنیائے کرکٹ کی کنفیوژن بھی کم ہو سکتی ہے اور پاکستان کی ہوم کرکٹ بھی درست سمت میں چل سکتی ہے۔

لیکن اگر پی سی بی جارحیت کی مدد سے اس مسئلے کا کوئی حل نکالنے کا ارادہ رکھتا ہے تو کرکٹ کے میدان میں یہ تنہائی جلد اس کا پیچھا چھوڑنے والی نہیں۔

ارطغرل غازی کے الیکشن کا چرچہ

 میں ٹی وی سیریلس بہت کم دیکھتا ہوں،مگر پچھلے دنوں لوگوں میں ترکی سریل ارطغرل غازی کاچرچہ سنا توکچھ ایپیسود میں نے بھی دیکھ لئے،سارے کا سارے سیریل ہمت،شجاعت،حکمت اورتوکل اﷲ پر مبنی کہانی پر مشتمل ہے،کیوں نہ ہو یہ سیریل اْس شخص کی تاریخ پر مشتمل ہے جس نے براعظم ایشاء اور آفریقہ کی سرحدوں تک 700 سالوں تک حکومت کرنے والے شخص کی ہو۔اطغرل غازی سیریل سے اگر کچھ پیغام ملتاہے تو وہ اپنے بازوں پر اعتمام اور خدا پر اْمید کے سہارے جینے کا پیغام ہے۔اس وقت اترپردیش سمیت ملک کے پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات شروع ہوچکے ہیں۔ان انتخابات کو لیکر ہر سوں چرچہ چل رہاہے،کوئی اپنے ہی شہرمیں بیٹھ کر کسی مخصوص پارٹی کی تشہیر کررہاہے تو کوئی علماء کے ذریعے یہ کہلوارہاہے کہ مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہوجائیا ور وہ ایک پارٹی کاانتخاب کرتے ہوئے ایک پارٹی کو ہی ووٹ دیں،اسدالدین اویسی کے تعلق سے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ اْنہیں مسلمانوں کا قائد بننے نہ دیاجائے بلکہ مسلمانوں کو یادو،برہمنوں،گوڈا، لنگایت ،دلت،چودھری،ٹھاکر بنیئے اور مراٹھا لوگوں کی چاپلوسی کرتے ہوئے اْن کے تلوے چاٹتے رہنے کیلئے چھوڑدیاجائے۔جتنی ذاتوں کا ہم نے ذکرکیاہے اْن تمام کا مقصدیہی ہے کہ مسلمان ووٹر تو بنیں مگر لیڈر نہ بنیں۔اب بات کرتے ہیں اطغرل غازی اور یوپی الیکشن کی۔اس وقت اترپردیش میں پیس پارٹی،ویلفیر پارٹی،ایس ڈی پی آئی،مسلم لیگ جیسی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کی تشکیل کردہ سیاسی پارٹیاں ہونے کے باوجود اْتنا ہنگامہ نہیں مچا رہی ہیں ،جتناکہ اسدالدین اویسی کی ایم آئی ایم مچارہی ہے۔جسے بھی لو وہ مجلس سے خوفزدہ ہے اور مجلس اتحاد المسلمین کو طاقتورسیاسی جماعت ماننے کیلئے مجبور ہوچکاہے،کیونکہ پچھلے دنوں اترپردیش میں اکھلیش یادو اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی اپوزیشن لیڈر کاکردار اداکرے میں ناکام ہوئے تھے او ران کے ابّا ملائم سنگھ یادو وزیر اعظم نریندرمودی کو آشرواد دے رہے تھے کہ آگے بھی وہی وزیراعظم بنیں،اْس وقت اسدالدین اویسی ہی واحد شخص تھے جو مسلمانوں کی قیادت میں آواز اٹھا رہے تھے اور وہی پچھلے کئی سالوں سے مودی حکومت کی مخالفت کررہے تھے۔لیکن آج جب بات قیادت کوچننے کی آئی ہے تو خود مسلمان یہ کہہ رہے ہیں کہ کہیں ووٹوں کا بٹوارا نہ ہوجائے،کہیں ووٹ پھوٹ نہ دیں،کہیں ووٹوں کی کم و پیشی کی وجہ سے پھر سے فرقہ پرست حکومت پر قابض نہ ہوجائے۔یقیناً فرقہ پرستوں کواقتدارپر بیٹھنے کا موقع ہی دینا نہیں چاہیے،بلکہ اْن کی جڑوں کو کھوکھلاکرنے کی ضرورت ہے،لیکن کیا اکھلیش یادو،نتیش کمار،رام ولاس پاسوان،دیوے گوڈا،مایاوتی،راہل گاندھی واقعی میں سیکولر ہیں،جن پر مسلمان اعتبارکررہے ہیں۔دراصل یہ تمام لوگ سیاسی طورپر سیکولرہیں،ورنہ سرمیں کمیونل اور پیانٹ میں خاکی چڈی ہی ہے۔سیکولرزم کی اصل بنیاد تو آئین میں ہے اور اصلی سیکولر تو مسلمان ہیں جو گوشت بھی کھاتے ہیں،سبزی بھی کھاتے ہیں،مسلمانوں کو سیکولرزم کاحوالہ دیکر اپنی سیاسی روٹیاں سینکھنے کی کوشش کررہے اکھلیش جیسے لوگ مظفر نگر میں محلہ وار سطح پر حملے تو کرواسکتے ہیں ،لیکن دس اعظم خان،دس اویسی جیسے قائدین کو پیدا نہیں کرسکتے۔اگر مسلمانوں کو واقعی میں اپنی سلطنتیں ارطغرل کی طرح قائم کرنی ہیں اور سلطنتِ عثمانیہ جیسی سلطنتوں کو بحال کرناہیتو اْس کیلئے اپنے قائدین پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔اپنے قائدین کو رہنماء ماننے کی ضرورت ہے،اپنوں سے منافقت کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے،منافقانہ رویش کو ختم کرنے کی ضرورت ہے،چند سکوں،چند پیسوں کی خاطر چاپلوسی کرتے ہوئے زندگی گذارانا مومن اور مسلمان کی نشانی نہیں بلکہ منافق کی نشانی ہے،جسے اﷲ پر توکل ہو وہ اپنوں پراعتبار کرتاہے اور جسے غیروں پر اعتبارہے،اْسے اﷲ پر توکل نہیں۔جب مسلمان یہ طئے کرلیں کہ توکل اﷲ ہی مسلمانوں کی بنیادہے تو اْس کے سامنے اکھلیش یوگی کچھ نہیں۔ضروری ہے کہ آج مسلمان اپنی قیادت کو مضبوط کریں،مسلمانوں کیلئے یوگی مودی تو کچھ بھی نہیں،اہلِ اسلام نے313 رہ کر کفارکو سبق سکھایاتھا،عمل پیہم رہنے کی وجہ سے مدینہ منورہ سے لشکر نکل کر مکہ فتح کرلیاتھا۔یہاں یوپی فتح کرنیکیلئے ضروری نہیں کہ سارے ایک جگہ اکٹھا ہوجائیں بلکہ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی قیادت کو مضبوط کرنے کا موقع ملے وہاں پر تیاری کرلیں اور اسدالدین اویسی جیسے رہنماؤں کیتئیں بدگمانی پھیلانیکے بجائے اْن کے تئیں اچھی فکر لوگوں میں لائیں،کیونکہ اچھی فکر سے ہی حوصلے اور فیصلے مثبت ہوتے ہیں

Saturday, January 29, 2022

پوٹاش کیا ہے اور کیوں ضروری ہے.



*اپنی رائے ضرور دیں*

ایک ایسا نام جو ڈی اے پی اور یوریا کے بعد تیسرے نمبر پر لیا جاتا ہے۔*

*

*کوئ بھی فصل ہو ماہر زراعت پوٹاش کا مشورہ ضرور دے گا۔*

*-کوئ بھی باغ ہو ماہر زراعت پوٹاش کا مشورہ ضرور دے گا*

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے کسان کو پوٹاش کی الف ب کا بھی علم*

*نہیں ہے

کسان سمجھتا ہے کہ مجھ پر ایک فضول کھاد تھونپنے کی کوشش کی*

*جا رہی ہے، جس کا کوئ فائدہ نہیں ہے۔ بس خرچ بڑھانے والی بات ہے۔

ہمارے اکثر کسان بھائیوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ پوٹاش ایک کھاد*

*ہے یا کوئ ٹانک، بوری میں ملتی ہے یا تھیلے میں۔

یہ بھی نہیں معلوم کہ پوٹاش کھاد والی کمپنیوں سے ملتی ہے یا*

*پیسٹی سائیڈ کمپنیوں کے پاس ہے۔

*پوٹاش کیوں ضروری ہے؟*پوٹاش کی مثال ایک مستری کی سی ہے یعنی تمام کھادوں کو ان :1*

*کی ضرورت کی جگہ تک پہنچانا پوٹاش کی ذمہ داری ہے۔

*یہ پوٹاش ہی ہے جو قد کو حد سے ذیادہ بڑھنے نہیں دیتا۔ :2*

یہ پوٹاش ہی ہے جو پتوں، پھولوں اور پھلوں/ٹینڈوں اور بیجوں کو :3*

*بر وقت اور ضرورت کے مطابق خوراک مہیا کرتا ہے۔

ذمین سے جانے والی ہر خوراک کو اس کی ضرورت کی جگہ تک لے :4*

جانا اور پتوں میں بننے والی خوراک کو پھل/ٹینڈے اور بیج میں یکساں

*جمع کرنا، پھل/ٹینڈے کی یکساں بھرائ کرنا پوٹاش کی ذمہ داری ہے۔

*پھلوں کا ذائقہ اور مٹھاس بھی پوٹاش کے ذمے ہے۔ :5*

*پھول، پھل/ٹینڈے اور بیج کی تمام کوالٹی بھی پوٹاش کے ذمے ہے۔ :6*

پوٹاش کی اتنی ذیادہ اہمیت ہے کہ صرف پوٹاش پر مکمل کتاب لکھی*

*جا سکتی ہے

*پوسٹ کی طوالت سے بچنے کیلئے اتنے پر ہی اکتفا کر رہا ہوں۔*

*نوٹ*پوٹاش ہر کھاد والی کمپنی اور بہت ساری پیسٹی سائیڈ کمپنیوں کے*

پاس دانے دار حالت میں 50 کلو کی بوری کی شکل میں، پاوڈر کی شکل

میں تھیلے اور مائع (لیکوڈ) شکل میں ڈرمیوں (کینوں) میں ہر بڑی

*مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

چونکہ پوٹاش کی اہمیت اور فوائد ڈی اے پی اور یوریا سے کہیں ذیادہ*

*ہیں اس لئے اس کی قیمت بھی ڈی اے پی اور یوریا سے ذیادہ ہے

جادوگری ... !

 . مصر میں ان دنوں جادو میں عروج کمال پر تھا یہاں لوگ کبالہ نامی جادو اور سفلیاتی علم کے ذریعے ہر ناممکن اور ناقابل یقین کام کو سرانجام دیا کرتے تھے مثال کے طور پر سامری نامی جادوگر جس کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں ان کے مقابلے کے لیئے فرعون کے کہنے پہ بلوائے گئے تھے وہ اسی کبالہ جادو کا سہارا لیا کرتے تھے۔اس دور کے مصری بادشاہوں کو فرعون کا لقب دیا جاتا تھا اس وقت کے جادوگر فرعون کو کبالہ نامی کالے جادو کے ذریعے سے شیطان سے رابطہ کر کے دنیا پر حکمرانی کرنے کے نت نئے حربے سکھاتے اور ایسی ایسی ایجادات کرواتے جن کو ابھی تک سائنس سمیت انسانی عقل حیرت سے تک رہی ہے انہی ایجادات میں ایک احرام مصر بھی شامل ہیں، نمرود کے دور کی عجیب ایجادات بھی انہیں میں سے ایک ہیں۔ لیکن ایک وقت آیا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ وہ اپنی قوم یعنی بنی اسرائیل کو لے کر فلسطین کی طرف ہجرت کر جائیں۔ حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو سمندر کے راستے نجات دلوا کر مصر سے نکل گئے جہاں فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہوا اور موسٰی علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر دوبارہ سے فلسطین میں آباد ہو گئے۔لیکن اس دوران بنی اسرائیل قوم فرعونوں میں رہتے ہوئے غرور و تکبر، ماہر جادوگروں کا علم اور دنیا پر حکمرانی کے حربے سیکھ چکی تھی یعنی ان میں فرعونوں جیسی تمام درندگی والی صفات پیدا ہو چکی تھیں۔ فلسطین آکر بنی اسرائیل رفتہ رفتہ سرکش اور نافرمان بن گئی اور مصری جادوگروں سے سیکھے گئے کبالہ عملیات اور جادو کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کرنے لگیں۔


بنی اسرائیل نے جادو میں مصری جادوگروں سے بھی زیادہ مہارت حاصل کر لی اور اسے اپنے دشمنوں اور مخالفوں کو نقصان پہنچانے کے لیئے استعمال کرنے لگے یہاں تک کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا دور آیا۔ اللہ نے آپ علیہ السلام کو عظیم الشان سلطنت کے علاوہ جنات پر حکمرانی بھی عطا فرمائی تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کے یہودیوں نے لوگوں کو ورغلانہ اور بہکانہ شروع کر دیا اور انہیں بتایا کہ نعوذباللہ سلیمان علیہ السلام کے پاس کبالہ کی ہی حکمت موجود تھی جس کے ذریعے آپ جنات کو کنٹرول کرتے تھے لہذا لوگوں نے بنی اسرائیل کے ان یہودیوں کی باتوں میں آکر کبالہ جادو کو روحانیت کے طور پر سیکھنا شروع کر دیا یہاں تک کہ جادو کی کتابوں کو مقدس کتابوں کا درجہ دے کر ہیکل سلیمانی میں رکھ دیا گیا ۔مسلسل اللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے اس قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا اور ہیکل سلیمانی پر دو مرتبہ حملہ ہوا۔ پہلا حملہ بخت نصر اور دوسرا حملہ ٹائٹس نامی بادشاہ نے کیا اور ہیکل سلیمانی کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا اور یہاں موجود بنی اسرائیل کو قتل کیا جانے لگا تقریبا ڈیڑھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا بچے کچے یہودی مجبورا ہجرت کر کے پورے کرہ ارض پر پھیل گئے۔ ہیکل سلیمانی پہ حملے کے دوران جادو کی سب کتابیں ہیکل سلیمانی کے ملبے تلے ہی دب کر رہ گئی جب کہ حملہ آوروں کو خبر تک نہ تھی کہ کبالہ نامی جادو کیا چیز ہے۔

لیکن پھرگیارہ سو اٹھائیس عیسوی میں ان بچے کچے یہودیوں نے مل کر ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نامknight templars رکھا گیا۔ اس تنظیم کا مقصد بظاہر عیسائی مسافروں کو تحفظ فراہم کرنا تھا یعنی بظاہر یہ ایک سیکورٹی کمپنی بنائی گئی تھی مگر درحقیقت ان کا مقصد ہیکل سلیمانی کے ملبے تلے موجود جادوئی کتابوں کو تلاش کرنا تھا جن کے یہ لوگ کبھی طالب علم رہے تھے اور یہ نہایت شاطرانہ انداز سے اس میں کامیاب بھی ہوگئے۔ کیونکہ 1860عیسوی میں برطانیہ کے دو انجنیرز نے حرم شریف کے نیچے کھدائی کی تاکہ کچھ سروے کر سکے تو وہاں انہیں سرنگوں کا ایک جال نظر آیا جو انknight templarsنے کھودیں تھیں تاکہ ہیکل کے کھنڈرات سے وہ نایاب جادوئی کتابیں ڈھونڈ سکیں۔ وہ یہ نایاب اور جادوئی اثرات والی کتابیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے جن میں کالے جادو اور پر اسرار رسومات کا تمام علم تھا۔ ان سب کتابوں کو حاصل کر کے ان کی غیر معمولی طاقتوں کا فائدہ اٹھا کر دنیا پہ حکمرانی کرنا انknight templars کا مقصد تھا۔ یہ لوگ عیسائیوں کے ساتھ مل کر صلیبی جنگوں میں بھی شامل ہوتے رہے اور خود کو انہی کا حصہ یعنی عیسائی ظاہر کر کے دنیا پہ حکمرانی کے خواب دیکھتے رہے مگر سلطان صلاح الدّین ایوبی جیسے مسلم حکمران کے ہوتے ہوئے ان کے یہ ناپاک عزائم کامیاب نہ ہو سکے۔ چنانچہ جب عیسائیوں کو ان knight templars کے یہودی ہونے کا پتہ چلا تو انہیں قتل کرنا شروع کر دیا گیا جس کے بعد مجبور ہو کر یہknight templars سکاٹ لینڈ ہجرت کر گئے اور پھر آہستہ آہستہ وہاں سے اپنا اثر و رسوخ پورے برطانیہ تک پھیلا دیا۔ یہاں سکاٹ لینڈ میں انknight templars کے یہودیوں نے لوگوں کو طاقت اور دولت کے سہانے خواب دکھانے شروع کر دیئے کیونکہ وہ لوگوں پر حکمرانی کرنے اور لوگوں کے نفسیات سے کھیلنے کے تمام تر حربے جان چکے تھے یوں آہستہ آہستہ لوگ دولت اور ان کی سوچ کا شکار ہو کر ان میں شامل ہوتے گئے کیونکہ انسان فطری طور پر دولت اور طاقت ہی چاہتا ہے اور یوں یہ تنظیم تیزی سے پھیلنے لگی یہاں تک کہ اسے 1128 میں مذہبی تنظیم تسلیم کر لیا گیا جس کے نتیجے میں اسknight templarsنامی تنظیم کو تمام یورپی قوانین سے استثنی حاصل ہو گیا اور یہی چیز ان کے طاقت میں اضافے کا باعث بنی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت جلد ہی یہ لوگ دنیا کے تمام وسائل پر قابض ہونا شروع ہو گئے یہاں تک کہ جائیدادیں، قلعوں، جاگیروں اور دنیا بھر کے وسائل پر قبضہ کرنے لگے ..........یہ تنظیم دنیا بھر کے تربیت یافتہ اور تجربہ کار لوگوں پر مشتمل ہو گئی اس تنظیم کا سربراہ Grand masterکہلاتا ہے اور ان کے نائب ماسٹر کہلاتے ہیں۔ گرانڈ ماسٹر کا حکم ان کے لیئے خدا کا درجہ رکھتا ہے۔ اس زمانے میں لوگ بیرون ممالک سفر کرنے سے گھبراتے تھے کیونکہ راستے میں ڈاکووں کا خدشہ رہتا تھا انknight templarsنے تھوڑی سی فِیس کے بدلے لوگوں کی نقدی اور رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا شروع کر دیا اور سود لینا شروع کر دیا اسی سسٹم کے ذریعے آگے چل کر بینک کا نظام متعارف کروایا گیا۔ بعد میں یہی یہودیknight templarsیورپ میں پہلے سے موجود ایک تنظیم میسن گِلز میں شامل ہوگئے اور یہاں کبالہ جادو کے رسومات اور علامات متعارف کروانا شروع کر دیئے۔ کچھ عرصہ بعد میں انknight templarsیہودیوں نےMeson gillsکے ہی اراکین میں سے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ مل کر اپنا نام بدل کرFree meson رکھ لیا اور یوںFree meson نامی تنظیم وجود میں آئی جس کا مقصد پوری دنیا میں آذاد خیالی اور دین سے بیزارگی کو فروغ دینا تھا انسان کے اندر جنس پرستی اور مادی خیالات کو پروان چڑھانا تھا۔چنانچہ اسی چیز کو آگے بڑھاتے ہوئے اس تنظیم نے یورپ میں جنگوں کو بڑھایا اور سودی کاروبار یعنی بینکنگ اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف وغیرہ بنا کر دنیا کی معیشت کنٹرول کرنے کا طریقہ متعارف کروایا۔ کیونکہ پوری دنیا کو کنٹرول کرنے کا واحد طریقہ اس کی معیشت کو کنٹرول کرنا ہے۔ ان تنظیموں نے ایک تیر سے دو شکار کر کے مغرب میں جنگ کروا کر مذاہب خاص طور پر مسلمانوں پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگا کر مذہبی بیزارگی کو فروغ دیا اور دوسری طرف ان دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیئے اپنے ہتھیار بھیج کر اربوں پتی بن گئے۔سترہ سو چھہتر میں اسFree meson نے مل کر ایک نئی تنظیم

Aluminati قائم کی،Aluminati کے نظریات اور مقاصدFree meson کے جیسے ہی تھے۔ لفظAluminati کا مطلب علم کی روشنی سے معمور ہے۔ سبAluminati خود کو دنیا کے علم میں خود کو سب سے افضل سمجھتے ہیں۔ ان کے سبplans خفیہ رہتے ہیں کیونکہ یہ مانتے ہیں کہ جو علم ان کے پاس ہے وہ عام انسانوں کے پاس نہیں ہونا چاہیئے اسی لیئے ان کا دین ان کا ایمان ان کا جینا مرنا سب ہیAluminati ہے۔بائیبل میں ابلیس کا نام لوسیفر بتایا گیا ہے جس کا مطلب ہے روشنی کا علمبردار۔ دراصل شیطان کو لوسیفر تب کی بناء پہ کہا گیا ہے جب وہ اللہ کا فرمانبردار ہوا کرتا تھا لیکن یہ تنظیمیں آج بھی شیطان کو اچھا مانتی ہیں اس لیئے وہ شیطان کو لوسیفر ہی کہتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ لوسیفر ہر چیز کا منبہ ہے خاص طور پہ ساری روشنی اور سارے علوم کا۔ Albert pikeجوکہFree mesons کے فاونڈرز میں سے ایک تھا وہ ایک 33 ڈگری Free mesonتھا جیسے ہمارے ہاں درجہ بدرجہ اولیاء اللہ اور تقوی کے لحاظ سے بڑی بڑی ہستیاں ہوتی ہیں بالکل اسی طرح ان کے ہاں بھی بتدریج ابلیس کے پجاری ہوتے ہیں جس میں سب سے بڑا درجہ 33 ڈگری کا ہے۔Albert pike کی کتابMorlis and Dogmaآج بھی

Free mesonکے سٹوڈنٹس کو رہنمائی کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اس کتاب کے کچھ کلمات آپ سے شیئر کرتا چلوں جہاںAlbert Pike لکھتا ہے۔کوئی شک نہیں یہ Lusipher ہی ہے جس کے پاس تمام انوار ہیں تمام روشنیاں ہیں۔ اسی لیئے یہ تمام لوگ کوCurrent bulletسے تشبیہ دیتے ہیں اور اکثر جسم کے مختلف اعضاءپر کرنٹ کے نشان نماTattosبنوا کر پھرتے ہیں۔


کہا جاتا ہے دنیا کی مکمل آبادی میں سے صرف ایک فیصد Aluminati ہے جو کہ دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں اور یہ تیرہ Blood lines یعنی خاندان ہیں جو نسل درنسل شیطان کی پوجا کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ لوگ کسی کو بھی اپنی خفیہ تنظیم میں شامل نہیں کرتے ہاں مہرہ بنا کے اپنی انگلیوں پہ ضرور نچاتے ہیں یعنی جو لوگ مشہور ہونا چاہتے ہیں یا پیسہ کمانا چاہتے ہیں وہ شیطان سے سودہ کر کے اسے اپنی روح بیچ دیتے ہیں اور ہمیشہAluminati کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں پھر وہ جیسا کرنے کو بولتے ہیں انہیں ویسا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی ممبرAluminati

کے کسی قانون اور رول کی خلاف ورزی کرے تو اسے عبرتناک طریقے سے مار دیا جاتا ہے۔Aluminatiکی تیرہ نسلوں میں ایک خاندانDavid Philipکا ہے جبکہ ایک خاندانRothus Childکا ہے یہ دونوں خاندان پوری دنیا کےFinancial systemاورامریکہ کےFederal Reserves bankکے مالک ہیں ، یہ لوگ80سے 90فیصد کنٹرول دنیا پہ حاصل کرچکے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر اچھے اچھے کام کرتے ہیں انسان کی آسائش اور آسانی کے لیئے طرح طرح کے فلاحی کام کر کے لوگوں کی ہمدردی اور ان کا بھروسہ جیتتے ہیں لیکن پس پردہ ان کے مقاصد شیطانیت کوPromoteکرنا ہوتا ہے۔ ان کا طریقہ کار یہی ہے کہ اپنی فیلڈ کی مشہور شخصیات کو اپنے دائرے میں ایک حد تک شامل کرتے ہیں یا پھر اپنے ہی لوگوں کو عوام کے درمیان مشہور کیا جاتا ہے اور وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ چاہے وہ سیاست کا میدان ہو یا فلموں کی دنیا وغیرہ ہو یہ اپنے اداکاری کے جوہر دکھا دکھا کر لوگوں کےFavouriteہیرو اور سیاست دان بن جاتے ہیں لوگ انہیں اپنا مسیحہ اپنا آئیڈیل سمجھ کر ان کے چال چلن کو فالو کرنے لگ جاتے ہیں انہیں سپورٹ کرنے لگتے ہیں اور جب انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ شکار جال میں پھنس چکا ہے تب بہت ہی غیر محسوس انداز میں ان کیMind programming کرکے شیطانیت کو پروموٹ کرنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک پرانا طریقہ تھا اور اب صورتحال یہ ہے کہ یہ نوجوان نسل کو ٹارگٹ کرنے کے لئے ان کو پارٹیز میں بلواتے ہیں نشہ کی لت لگاتے ہیں اور ان پر فل کنٹرول حاصل کرکے ان سے اپنے مقاصد پورے کرواتے ہیں۔ جو نوجوان ان کو اپنے لئے خطرہ محسوس ہوتے ہیں ان کو مار دیا جاتا ہے ساتھ ہی ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس گروہ کے سینئر لوگ مزید طاقت حاصل کرنے اور شیطان جس کی یہ پوجا کرتے ہیں اس کو خوش کرنے کے جنون میں اپنے ہی جونئیر پیروکاروں کی بھی بلی چڑھاتے ہیں۔ یہ ک طرح کی عبادات اور عملیات کرتے ہیں ..........للہ...

سرور كونين

 ربیع الاول شریف کی وہ مبارک گھڑی جب وجہ خلیق کائنات اس دنیا میں تشریف لاۓ عاشقان مصطفی صلی اللہعلیہ وآلہ سلم کیلئے لیلتہ القدر ے بھی زیادہ فضل ہے کیونکہ لیلتہ القدر بھی اس مبارک ساعت کے وسیلے سے ملی ۔ اگر آمد مصطفی ﷺ کو حصول نعمت کا آغاز سمجھ لیں تو باقی نعمتیں خود بخو داس کے تابع ہو جاتی ہیں ۔ بارش کا پہلا قطرہ دریاؤں اور سمندروں کیلئے ابتداء ہے دریاؤں کا شور ، سمندورں کی طغیانی ، چاندنی راتوں میں دریا کا جو بن سب سے پہلے قطرے کی مرہون منت ہیں اب اگر سارے سمندر کی اصل وہی پہلا قطرہ قرار دے لیں تو یہ تین منطق کے اصولوں کے مطابق ہے کیونکہ اس سے شہر میں ، دریا ، سمندر وجود میں آۓ ۔ یہی بات ربیع الاول میں آمد مصطفی سیتم کی ہے کہ اگر یہ گھڑی نہ ہوتی تو نعمتوں کا آغاز کیسے ہوتا ؟ لیلتہ القدر جیسی رات کیسے ملتی ؟ قرآن مجید جیسی نعمت کیسے ملتی ؟ ایمان اور ایمان کی حلاوت کیسے نصیب ہوتی ؟ گو یا جس مبارک گھڑی میں رسول اکرم اس دنیا میں تشریف لائے وہ گھڑی نعمتوں کا آغاز تھا باقی سب کچھ اس کے طفیل امت کے دامن میں آیا ۔ تمازت آفتاب سے جلتی زمین ہو یا آسان کی شعلہ ریزیوں کا سامنا کر نے والا پھول ٹوٹی گردنوں والے شگوفے ہوں یا سوکھی پنیاں خشک کھیتیاں ہوں یائو کی دہشت سے ہانپتے راستے ان سب کیلئے بارش کا پہلا قطرہ ہی بارش کی اصل ہے ۔ جل تھل کا ساں اس قطرے کے وسیلے سے ہے حسن ہے یہ قطرہ لہلاتے کھیتوں کا ، تابندہ چشموں کا ، مرمر میں ندیوں کا مہکتے پھولوں کا بقول اقبال از دم سیراب آں امی لقب لاله رست از ریگ صحراۓ عرب حریت پرورده آغوش اوس ینی امروز اعم از دوش اوست رسول پاک سانی ایم کی سانس مبارک نے انسانیت کو اس طرح سیراب کیا کہ ریت کے ٹیلوں بھرے عرب جیسے صحرا میں گلاب کے پھول کھل اٹھے ۔ آپ کا دین اور قانون ہر چیز کو بیان کرنے والا ہے اور آپ کی پیشانی مبارک میں پوری کائنات کی تقدیر کھی ہے یعنی جس سے آپ خوش وہ کامیاب ہو جاۓ گا اور جس سے آپ ناراض وہ ناکام و نامراد ہوگا ۔ اس نور مصطفی ﷺ کو کائنات کی اصل کہا گیا اسی بات کو اقبال کے لفظوں میں پڑھنے سے ایمان کوز یا د ہ حلاوت نصیب ہوگی فرماتے ہیں دشت میں ، دامن کہسار میں میدان میں ہے بحر میں موج کی آغوش میں طوفان میں ہے چین کے شہر مراکش کے بیابان میں ہے اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے چشم اقوام میں نظارہ ابد تک دیکھے رفعت شان ورفعنا لک ذکرک دیکھے نبی پاک سایت اصل الموجودات ہیں حدیث مبارکہ میں ہے کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے ۔ اب اس ساعت کی شان ملاحظہ ہو جس ساعت میں حضرت آدم کی تخلیق ہوئی حدیث | مبارکہ کے مطابق حضرت آدم کی تخلیق یوم جمعہ بعد نماز عصر ہوئی حضرت بی بی فاطمہ کا معمول تھا کہ آپ نماز عصر سے نماز مغرب تک کسی سے کلام ندفر ماتیں بلکہ ذکر واذکار میں مشغول رہتیں اور فرمایا کرتیں کہ اس وقت کی گئی کوئی دعار نہیں ہوتی کیونکہ یہ وہ وقت ہے جس وقت حضرت آدم کو پیدا کیا گیا ۔ گو یا جس گھڑی حضرت آدم کی تخلیق کی گئی اس وقت کی دعا کو اللہ ردنہیں فرماتا تو اس گھڑی کی کیا شان ہوگی جس گھڑی آقائے دو جہاں تشریف لائے بقول اعلی حضرت امام احمد رضا بر ملوی جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام حضرت سیدہ فاطمہ کا روزہ حضرت آدم کا میلا د تھا حضور پاک سالم کا میلا دتو ہمیشہ سے اہل ایمان کے محبوب وظائف میں شامل رہا ہے یہی عشق کا کمال ہے بقول اقبال ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست بحر و بر در گوشه دامان اوست روح را جز عشق او آرام نیست عشق اور وزیست کوراشام نیست جس خوش نصیب انسان کوعشق رسول سیتم کی گراں بہا دولت نصیب ہوگی سی کائنات بحر و بر اس کے گوشہ دامان کی وسعت سے زیادہ نہیں رہے گی انسان کی روح کو حضور سایلم کے عشق کے بغیر قرارنہیں مل سکتا یہ ہروقت مضطرب رہتی ہے اور آپ کا عشق ایسے دن کی مانند ہے جس کی تابانی اور تابنا کی کو بھی زوال نہیں آ سکتا ۔ سکالرز چودہ سوسال سے اس نا قابل فراموش انقلاب پر اپنی تحقیقات کو تھکا رہے ہیں جس نے اقوام عالم کے قلب پر ایک نرال لیکن دائی نقش ثبت کر دیا ۔ نورانیت مصطفی آج کی تراش نہیں بلکہ حقیقت ہے اور مسلمانوں کے ایمان کا حصہ

جنت الفردوس

 جنت کی پہلی صبح کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ جب آپ اپنے محل کی اونچائی پر کھڑے ہو کر جنت کے خزانوں اور اسکی نہروں کو دیکھ رہے ہونگے ! آپکے آسمان اور زمین تبدیل ہو چکے ہونگے ! دودھ شہد شراب اور انتہائی سفید پانی کی نہریں ! سونے اور چاندی کے محلات ! تاحدنگاہ موتیوں کی سر زمین ! کستوری کے ٹیلے ! هر طرف عمده خوشبوئیں ! گھنے درخت اور انکی سونے کی ٹہنیاں اور تنے ! مختلف رنگ و اشکال کے پھل ! نوکر چاکر , عظیم سلطنت , بلند مقام ! خوبصورت آنکھوں والی حور و غلمان ! آپ کو یہ پروانہ دے دیا گیا ہے کہ اب آپ ہمیشہ جوان رہیں گے کبھی بھی بوڑھے نہیں ہوں گے ! ہمیشہ تندرست رہیں گے کبھی بیمار نہ ہوں گے ! ہمیشہ زندہ رہیں گے کبھی موت نہ آئے گی ! ہمیشہ خوشیوں میں رہیں گے ! کبھی غم نہ دیکھیں گے کہ جسے اپنے اھل و عیال میں سے جسے آپ کھو چکے ہیں , اللہ تعالی آپ سب کو وہاں اکٹھے کرے گا ! ایسی جنت آج تک کسی آنکھ نے نہیں دیکھا کسی کان نے نہیں سنا اور ! نہ ہی کسی انسان کے دل پر اسکا خیال گذرا ہے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنھم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گی ! اور سب سے بڑھ کر اللہ رب ! العزت کا دیدار ہو گا : ذرا سوچئے 1 میں کیا یہ سب نعمتیں اس بات کی مستحق نہیں کہ اس چھوٹی سی زندگی اللہ رب العزت کے احکامات کو پورا کیا جائے ؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقوں کو اپنایا جائے ؟ اور گناہوں سے دور رھا جائے ؟ اور عمل میں اخلاص پیدا کیا جائے ؟ یا اللہ مجھے ، آپکو اور جن سے ہم محبت کرتے ہیں , ھمارے والدین , بھائیوں بہنوں گھر والی اور اولاد کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرما "

۔ اللہ جو کام کرتا ہے، انسان اگر وہی کام

 کان ہر طرح کی آوازیں نہیں سنتے ہیں۔ کچھ دیکھتی آنکھیں اتنا کچھ کہہ رہی ہوتی ہیں۔ کچھ خاموش مناظر اتنے چیختے ہوئے ہوتے ہیں۔ کچھ نظارے اپنے اندر اتنی واضح سسکیاں آہیں اور کراہیں لیے ہوتے ہیں۔ مگر ہم سب کچھ ضائع کر دیتے ہیں، صرف کان سے سننے کے چکروں میں۔ دل سے سنا کرو نا یار۔ 

السمیع اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے عموماً اس کا معنی سننے والا ہی کیے جاتے ہیں۔ اللہ جو کام کرتا ہے، انسان اگر وہی کام اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں رہتے ہوئے کرے، تو وہ کام بھی عبادت شمار ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ رحیم ہے اور رحم کرتا ہے۔ انسان اگر اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں رہتے ہوئے رحم کرتا ہے تو کام بھلے وہ کوئی بھی ہے وہ عبادت ہی ہے۔ چاہے ایک کتے کے بچے پہ رحم ہو یا چیونٹی پہ وہ عبادت ہی ہو گا۔ اللہ کریم ہے اللہ معاف کرتا ہے۔ آپ اطاعت الٰہی اور پیرویِ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رہتے ہوئے اللہ کے کرنے والے کاموں میں سے کوئی بھی کام کریں، شمار وہ عبادت ہی ہو گا۔

اب اللہ السمیع ہے لہذا وہ سنتا ہے۔ وہ بہت اچھا سننے والا ہے۔ ایک تو اس کی سماعت اتنی اعلی ہے کہ وہ ماں کے پیٹ میں موجود بچے کے دھڑکتے دل کہ دھڑکن سے لے کر بگ بینگ کے دھماکے تک سب کچھ ہی خوب خوب سنتا  ہے۔ دوسرا اس کی توجہ بہت زبردست ہے۔ جس وقت جہاں مرضی ہو اسے سنا لو سنے گا۔ بلکہ وہ ایسی باتیں بھی سن لیتا ہے جو ہمیں کوئی سنائے تو ہم برا منا جائیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کس طرح ایسا سنے کے اس کا سننا بھی عبادت بن جائے؟

یاد رکھیے گا سائیں والوں کہ بہت ساری آوازیں ایسی ہوتی ہیں جو سنائی دینے کےلئے کانوں کی نہیں دل کی محتاج ہوتی ہیں۔ آپ ایسی آوازوں کو سننا شروع کر دیں، آپ کا سننا عبادت ہو جائے گا۔ کسی کی اٹھتی ہوئی سوالیہ نظریں، کسی کا التجائیہ لہجہ، کسی کا طلب کرتا ہوا انداز۔ یہ سب سنائی دیتے ہیں۔ آپ اطاعت اور پیروی کے دائرے میں رہتے ہوئے انہیں اگر صرف سن بھی لیں تو اللہ کے ہاں یہ ضائع نہیں جائے گا۔ ہمارا ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم سننے سے ہی عاری ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنی ہی کہی جاتے ہیں بس، سنتے کوئی نہیں۔ سننے کی عادت ڈالیں۔ 

ہمارے سرکارِ دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر مکہ میں وہ لوگ بھی آ کر اپنی باتیں سنا لیا کرتے تھے جنہیں پورے مکہ میں اور کوئی نہیں سنتا تھا۔ یاد ہے نا ایک حدیث کا مفہوم جس میں ایک اونٹ نے اپنے مالک کی شکایت کی تھی کہ میرا مالک مجھے کھانے کےلئے کم دیتا ہے؟ اور سرکارِ دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کر پھر مالک کو سمجھایا بھی تھا۔ گویا ہمارے نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم انسان تو انسان جانوروں کی بھی سنا کرتے تھے۔ ہم سنتے ہیں کیا؟ کبھی کسی بلی یا کتے کے آوارہ بچے کی سننے کی کوشش کی ہو ہم نے؟ کہ یہ جو اتنا مفلوک الحال پھر رہا ہے تو کیوں؟ تو سننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ صرف کانوں سے نہیں دل سے۔ آنکھیں بند کر کے یا کھلی آنکھوں سے اپنے گردو و پیش کو سنیں۔ ماحول باتیں کرتا ہے۔ مگر ہم انسانوں کی تو سنتے نہیں ہیں یار جانوروں درختوں یا دیواروں اور ماحول کی کیا سنیں گے؟ الٹا ہم کبھی کسی کو چیونٹیوں کی بل کے پاس دانہ ڈالتا دیکھ لیں تو اس کا مزاق اڑاتے ہیں۔ نہیں یار ایسا نہیں کرتے۔ سنا کرتے ہیں۔ کانوں کے ساتھ ساتھ دل سے بھی سنا کرتے ہیں۔

۔

نماز سے دماغی سکون ، سائنس کی رو سے !

 ‏بیشک ہم نے انسان کو بہترین سانچوں میں پیدا کیا ہے۔" 

قرآن 95:4 (سورۃ التین، انجیر) 


کھوپڑی کے اندر دماغ کا اصل وزن 1400_1700 گرام ہے۔ (1.3-1.5kg تقریباً) ہم اپنے سر میں اتنا بڑا وزن کیوں محسوس نہیں کرتے؟ کیونکہ یہ دماغی اسپائنل فلوئڈ میں تیرتا ہے اور پانی کے ‏اوپری حصے سے دماغ کا وزن تقریباً 0.18 کلوگرام تک کم ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس کا وزن محسوس نہیں ہوتا۔ یہ سیال اچانک اثر یا نقصان کے خلاف ایک کشن کے طور پر بھی کام کرتا ہے، آپ کے برائن سے فضلہ کو ہٹاتا ہے اور آپ کے اعصابی نظام کو صحیح طریقے سے کام کرنے میں مدد کرتا ہے۔


‏نماز کی قیمتی حرکتوں میں سے ایک سجدہ ہے، جہاں گھٹنے ٹیکنے پر یہ سیال اوپر نیچے حرکت کرتا ہے اور اس سے دماغ کو ایک طرح کا مساج ہوتا ہے، اور یہ نماز کے بعد ذہنی سکون کی ایک وجہ ہے۔ یہ اللہ کی کاریگری ہے، جو ہر چیز کو کامل ترتیب سے تصرف کرتا ہے." (النمل 27:88)۔


We have indeed created humankind in the best of molds.”

Quran 95:4 (Surat At-Tin, The Fig)


The real weight of the brain inside the skull is 1400_ 1700 grams

( 1.3 -1.5kg approx ) why don't we feel this huge weight In our head ?


Because it floats in the cerebrospinal fluid and the water upthrust reduces the brains weight to around 0.18 kg. Therefore, we don't feel it's weight. This fluid also acts as a cushion against sudden impact or damage, removes waste from your Brian and helps your nervous system work properly.


One of the most precious prayer movement is sajda,  where this fluid moves up and down when kneeling and it gives a kind of massage to the brain, and this is one of the reasons for mental comfort after prayer. (Such is) the artistry of Allah, Who disposes of all things in perfect order..." (al-Naml 27:88)

بہنوں کا ماں جیسا روپ .. . !

 بہنیں ماں کا روپ ہوتی ہیں یہ جملہ ہروہ بھائی دہراتاہے جس کی جان اپنی بہن میں بستی ہے وہ بھائی جس نے خودسے زیادہ بہن کے بارے میں سوچاہووہ بھائی جس نے ماں کے بعدتمام عورتوں سے پہلے اپنی بہن کو جگہ دی ہو اوریہ جملہ میں خود کئی باردہراچکاہوں کیونکہ میری بہن صرف کہنے میں نہیں وہ واقعی ہماری ماں ہے ہمارے بڑے بھائی جن کے ساتھ ہماری بہن پڑھنے جاتی تھی ہماری خواہش تھی کہ بہن ہمارے ساتھ پڑھنے جائے ہم کیونکہ چھوٹے تھے وہ بڑی ہونے کی وجہ سے ہم سے ایک کلاس آگے تھی ہماری خواہش کوپوراکرنے کیلئے اس نے اپناایک سال ضائع کردیااورہم نے مڈل کے امتحان ایک ساتھ دیئے جتنا وقت بھی ساتھ گزارایاد گار رہاہماری ایک ہی بہن ہونے کی وجہ سے اس کیلئے بھائی بھی ہم تھے اوربہن بھی ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلنی ہوہاکی کھیلنی ہوچاہے کوئی بھی گیم ہوتوہماری بہن ہمارے ساتھ لڑکوں کی طرح ہوتی اورگھرکے کوئی کام کاج ہوتے توکسی بھائی کو کہتی کپڑے دھلوا لوکسی کوکہتے چارپائیاں صحن میں ڈال دوکسی کو کہتی برتن دھلوالو کسی کو کہتی جھاڑوپونچاکرلویعنی اس وقت ہم بھائی اس کیلئے بہن کا کردارنبھاتے آہستہ آہستہ وقت گزرتاگیااوربہن اپنے گھرکی ہوگئی مگرہم بھائیوں کوکہاں چین صبح اٹھے تیاری کی بہن کے گھراگرکبھی لیٹ ہوگئے توبہن دیکھنے آجاتی کہ اﷲ خیرکرے خیریت توہے آج بھائی نہیں آئے شادی کے بعدبہن نے کبھی فرمائش نہیں کی کیونکہ ہمارابہنوائی ہماری بہن کوکسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتااورامی ابواس کے خواہش سے پہلے اس کی ضرورت پوری کردیتے۔یہ بات تب کی ہے جب میری شادی کی باتیں چل رہی تھیں فیملی میں کچھ مسائل کی وجہ سے میرے سسرال والے نہیں مان رہے تھے مگرمیں روزاپنی بہن کوکال کرتابجائے اس کے کہ امی ابوکوکروں کہ کچھ کریں یہاں تک لاہورتک میری بہن میرے امی ابوکولے کرآئی جب شادی طے ہوگئی تومیرے پاس زیورکے پیسے نہیں تھے توبہن نے کہاکہ پریشان کیوں ہوتے ہومیرے رکھے ہوئے ہیں نایہ کس روز کام آئیں گے میں نے امی سے کہاکہ(بہنوائی) کیاکہے گاتوامی نے کہاشادی کے بعدبنواکے دیناتومیں راضی ہوگیااب یہ نہیں پتابہنوئی نے کیاکہاہوگاکیاآخرکارمیری شادی ہوگئی میں اسے ایک نارمل قربانی سمجھ رہاتھامگروہ وقت بھی آگیاجب قربانی کاوزن دیکھنے تھا میرے سالے کی شادی تھی تومیری ساس نے میری بیگم کوکہاکہ کچھ روز کیلئے اپنے بھائی کو اپنے زیوردے دوشادی کے بعد وہ واپس کردیں گے میری بیگم نے واضع کہہ دیاشادی کرنی ہے یانہیں یہ آپ لوگوں کامسئلہ ہے میں نے اپنے زیورنہیں دینے جب میں نے یہ بات سنی تومیری بہن میرے ذہن میں فوراً آگئی اب یہاں یہ بات واضع ہوتی ہے کہ بہن بھائیوں میں جتناپیارہوتاہے قربانی بھی اتنادینے کے چانس ہوتے ہیں اورپیارصرف دیکھانے کیلئے نہیں اسے جتانابھی پڑتاہے۔ عیدروز ہم بہن کے گھرجارہے تھے ایک دوست نے پوچھا آپ اپنی بہن کے گھرعیددینے جارہے ہو چھوڑو ایسے پیسے ضائع کررہے ہو میں نے اسے اپنے ایک دوست کاواقع سنایاکہ حسن کہتاہے کہ میری بہن کی شادی کو 6 سال ہو گئے ہیں میں کبھی اس کے گھر نہیں گیا عید شب رات کبھی بھی ابو یا امی جاتے ہیں میری بیوی ایک دن مجھے کہنے لگی آپ کی بہن جب بھی آتی ہے اس کے بچے گھر کا حال بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں خرچ ڈبل ہو جاتا ہے اور تمہاری ماں ہم۔سے چھپ چھپا کر کبھی اس کو صابن کی پیٹی دیتی ہے کبھی کپڑے کبھی صرف کے ڈبے اور کبھی کبھی تو چاول کا تھیلا بھر دیتی ہے اپنی ماں کو بولو یہ ہمارا گھر ہے کوئی خیرات سینٹر نہیں مجھے بہت غصہ آیا میں مشکل سے خرچ پورا کر رہا ہوں اور ماں سب کچھ بہن کو دے دیتی ہے بہن ایک دن گھرآئی ہوئی تھی اس کے بیٹے نے ٹی وی کا ریموٹ توڑ دیا میں ماں سے غصے میں کہہ رہا تھا ماں بہن کو بولو یہاں عید پہ آیا کرے بس اور یہ جوآپ صابن صرف اور چاول کا تھیلا بھر کر دیتی ہیں نا اس کو بند کریں سب ماں چپ رہی لیکن بہن نے ساری باتیں سن لی تھیں میری بہن کچھ نہ بولی 4 بج رہے تھے اپنے بچوں کو تیار کیا اور کہنے لگی بھائی مجھے بس سٹاپ تک چھوڑ آو میں نے جھوٹے منہ کہا رہ لیتی کچھ دن لیکن وہ مسکرائی نہیں بھائی بچوں کی چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں پھر جب ہم دونوں بھائیوں میں زمین کا بٹوارا ہو رہا تھا تو میں نے صاف انکار کیا بھائی میں اپنی زمیں سے بہن کو حصہ نہیں دوں گا بہن سامنے بیٹھی تھی وہ خاموش تھی کچھ نہ بولی ماں نے کہا بیٹی کا بھی حق بنتا ہے لیکن میں نے گالی دے کر کہا کچھ بھی ہو جائے میں بہن کو حصہ نہیں دوں گا میری بیوی بھی بہن کو برا بھلا کہنے لگی وہ بیچاری خاموش تھی بڑابھائی علیحدہ ہوگیا کچھ وقت کے بعد میرے بڑے بیٹے کو ٹی بی ہو گئی میرے پاس اس کا علاج کروانے کے پیسے نہیں تھابہت پریشان تھا میں قرض بھی لے لیا تھا لاکھ روپیہ بھوک سر پہ تھی میں بہت پریشان تھا کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا شاید رو رہا تھا حالات پہ اس وقت وہی بہن گھر آگئی میں نے غصے سے بولا اب یہ آ گئی ہے منحوس میں نے بیوی کو کہا کچھ تیار کرو بہن کیلیے بیوی میرے پاس آئی کوئی ضرورت نہیں گوشت یا بریانی پکانے کی اس کے لیئے پھر ایک گھنٹے بعد وہ میرے پاس آئی بھائی پریشان ہو بہن نے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا بڑی بہن ہوں تمہاری گود میں کھیلتے رہے ہو اب دیکھو مجھ سے بھی بڑے لگتے ہو پھر میرے قریب ہوئی اپنے پرس سے سونے کے کنگن نکالے میرے ہاتھ میں رکھے آہستہ سے بولی پاگل توں اویں پریشان ہوتا ہے بچے سکول تھے میں سوچا دوڑتے دوڑتے بھائی سے مل آؤں۔ یہ کنگن بیچ کر اپنا خرچہ کر بیٹے کا علاج کروا شکل تو دیکھ ذرا کیا حالت بنا رکھی تم نے میں خاموش تھا بہن کی طرف دیکھے جا رہا تھاوہ آہستہ سے بولی کسی کو نہ بتانا کنگن کے بارے میں تم کو میری قسم ہے میرے ماتھے پہ بوسہ کیا اور ایک ہزار روپیہ مجھے دیا جو سو پچاس کے نوٹ تھے شاید اس کی جمع پونجی تھی میری جیب میں ڈال کر بولی بچوں کو گوشت لا دینا پریشان نہ ہوا کر تمہاری بہن ابھی زندہ ہیجلدی سے اپنا ہاتھ میرے سر پہ رکھا دیکھ اس نے بال سفید ہو گئے وہ جلدی سے جانے لگی اس کے پیروں کی طرف میں دیکھا ٹوٹی ہوئی جوتی پہنی تھی پرانا سا دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا جب بھی آتی تھی وہی دوپٹہ اوڑھ کر آتی بہن کی اس محبت میں مر گیا تھا ہم بھائی کتنے مطلب پرست ہوتے ہیں بہنوں کو پل بھر میں بیگانہ کر دیتے ہیں اور بہنیں بھائیوں کا ذرا سا دکھ برداشت نہیں کر سکتیں وہ ہاتھ میں کنگن پکڑے زور زور سے رو رہا تھااس کے ساتھ میری آنکھیں بھی نم تھیں اب وہ ساری زندگی پچھتاتاہے مگراس پچھتاوے کاکیافائدہ کہ وہ کبھی آنکھ اٹھاکے بہن سے بات تک نہ کرسکے بہنیں اپنے گھر میں خدا جانے کتنے دکھ سہہ رہی ہوتی ہیں کچھ لمحے بہنوں کے پاس بیٹھ کر حال پوچھ لیا کریں شاید کے ان کے چہرے پہ کچھ لمحوں کے لیئے ایک سکون آ جائے،بہنیں

کشمیر کی سیاحت

 5ہزار سال قدیم یونیورسٹی شاردہ کے کھنڈرات، قلعے ، کورؤں اور پانڈؤں ، منگولوں اور مغلوں کی گزرگاہیں، دلفریب باغات ، جنگلات اور پگڈنڈیاں، آبشاریں، قلعے، آثار قدیمہ کا خزانہ۔ لاکھوں سیاح اندرون ملک سے کشمیر پہنچ رہے ہیں کورونا وائرس کی وجہ سے دیگر شعبہ جات کی طرح خطے کی سیاحت صنعت کو بہت نقصان پہنچ چکا ہے۔ اب حکومت نے ملک کے دیگر سیاحتی مقامات کی طرح آزاد کشمیر کو بھی سیاحوں کے لئے کھول دیا ہے۔ اس اہم شعبہ کے ساتھ آزاد ریاست کے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔جو پانچ ماہ سے بے روزگار تھے۔کشمیر بلا شبہ دنیا میں جنت بے نظیر ہے۔وادی نیلم، جہلم، لیپا، تولی پیر، گنگا چوٹی، بنجوسہ جیسے بالائی علاقوں میں جون میں بھی جنوری جیسی فضا اور موسم کا احساس ہوتا ہے۔کشمیر کا ایک خوبصورت ترین حصہ بھارت کے قبضے میں ہے۔دوسرا حصہ، آزاد کشمیر اور تیسرا ،گلگت بلتستان ہے۔ چوتھا، چین کے زیر کنٹرول ہے۔یہ سب خوبصورتی کے شاہکار ہیں۔ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں ریاست کو گلگت بلتستان سے قریب لانے کی طرف توجہ دی گئی۔ جس کا سب نے خیر مقدم کیا۔ گلگت بلتستان کے عوام سے دوستانہ تعلق قائم کرنے کی کوشش سب کی خواہش ہے۔آزاد کشمیر کے پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں ان کے لئے کوٹہ مختص کیا گیا۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے آزاد کشمیر کوبراستہ گلگت بلتستان چین سے جوڑنے کے لئے ایک اہم شاہراہ نیلم ایکسپریس وے اور شونٹھر ٹنل تعمیر کرنے کا اعلان کیا ۔پتہ نہیں ان منصوبوں کے کے ساتھ کیا واردات ہوئی۔ فوری کام شروع نہہوا ۔وادی لیپا ٹنل کی تعمیر بھی ضروری تھی۔مگر یہ بھی تعمیر نہ ہوئی۔ اگر عمران خان حکومت نے سی پیک میں آزاد کشمیر کو بھی شامل کرنے کی ضرورت کو مدنظر رکھا، اہم منصوبوں کی تکمیل میں دلچسپی لی اور ترقی کو سیاست سے الگ رکھا تو سی پیک سمیت شاہراہ وادی نیلم ، ترقی اور سیاحت کے فروغ ہی نہیں بلکہ اس خطے کی ترقی کا باعث بنے گی۔ ڈوگرہ مہاراجوں کے دور میں قدیم راستے کشمیر کو وسط ایشیاء ، ایران، چین سے ملاتے تھے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومتیں اسلام آباد کے ساتھ مل کر خطے کی تعمیر وترقی پر خصوصی توجہ دیں تو یہاں کی تقدیر بدل جائے گی۔


چھٹیاں گزارنے کے لئے ایک بار پھر سیاحوں نے وادی نیلم کا رخ کیا ہے۔ گاڑیوں کی قطاریں وادی نیلم کی طرف لگی ہیں۔کئی ہزار گاڑیوں کی انٹری ہوئی ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کے باوجود لوگ پر امید ہیں۔ یہاں کے لوگ مہمان نواز ی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔بعض ایسے کاروباری حضرات کے بارے میں شکایات ہیں کہ وہ سیاحوں کی میزبانی اور سہولت سے زیادہ مال کمانے پر توجہ دیتے ہیں۔ ان کے خلاف مقامی انتظامیہ سرگرم ہے۔انتظامیہ کو اس سلسلے میں سخت کارروائی کرنا چاہیئے۔ انٹری پوائنٹس پر سیاحوں سے کوئی فیس وصول نہیں کیجا رہی ہے۔ سیاحوں کی آج پہلی ترجیحکشمیرہے۔کاغان، ناران، سوات سے بھی لوگ وادی نیلم جا رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے غیر ملکی سیاحوں کا رخ بھی اس طرف موڑا جائے۔اگر پانچ کلو میٹر کی سرحدی پٹی میں غیر ملکیوں کے داخلہ ممنوع ہونے کی شرط رکھی گئی تو یہاں کوئی نہ آسکے گا۔ کیوں کہ یہاں زیادہ تر علاقہ پانچ کلو میٹر سے بھی کم فاصلے پر سیز فائر لائن پر واقع ہے۔ آزاد کشمیر کے دیگر سیاحتی مقامات وادی جہلم،لیپہ،پیر چناسی، بنجوسہ، راولاکوٹ، سدھن گلی وغیرہ کی اپنی زبردست اہمیت ہے ۔ وادی نیلم میں ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے ابلتے چشمے،آبشاریں،پھول پودے، دماغ کو معطر کر دینے والی وادیاں، دلفریب قدرتی مناظر،آسمان سے باتیں کرتے بلند و بالا پہاڑ، جھرنے، ندی نالے، ہزاروں قسم کی جڑی بوٹیاں، قدرتی پھول اور لذیز پھل سیاحوں کا استقبال کرتے ہیں۔حکومت راستے کشادہ کر رہی ہے، سیاحوں کو سہولیات دینے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ شاہراہوں کو اچھا تعمیر کیا گیا مگر نکاسی آب کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی۔ اس لئے جگہ جگہ کھڈے پڑ گئے۔ ہوٹل اور ٹینٹ ویلج قائم ہیں۔ گیسٹ ہاؤسزلا تعداد ہیں۔جن کو گزشتہ پانچ ماہ کی یوٹیلٹی بلز معاف کرنے اور بلاسود قرضے دینے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنی گاڑی میں اسلام آباد سے براستہ مری، کوہالہ ، دھیر کوٹ، باغ،گنگا چوٹی، مظفر آباد سے ہوتے ہوئے پیر چناسی، وادی جہلم اور وادی نیلم کی سیر کو نکل سکتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں بھی لاکھوں سیاح نیلم آئے۔ وادی کی سیاحت کا یہی موسم ہے۔ اپریل تا ستمبر۔ سیاح ٹریکنگ بھی کر سکتے ہیں۔ تا ہم موبائل سروس صرف ایس کام کی ہے۔ دیگر موبائل سروسز صرف نوسیری نیلم جہلم پروجیکٹ تک ہی کام کرتی ہیں۔ایڈونچر ٹورازم ، بوٹنگ بھی ہو سکتی ہے۔آپ سرما میں بھی یہاں برف پوش پہاڑوں پر سکیٹنگ اور برفانی کھیلوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مری، سوات، ناراں، کاغان جیسے خوبصورت مقامات کی اپنی دلکش اہمیت ہے۔ سیاح تعطیلات سیکڑوں کلو میٹر پر پھیلے کشمیر میں گزارکر انہیں یاد گار بنا رہے ہیں۔ یہاں آ کر تحریک آزاد ی کشمیر اور اس کے متاثرین کا بھی پتہ چلتا ہے۔ دریائے نیلم کے سامنے مقبوضہ کشمیرکی آبادی بھارتی فوج نے قید کر رکھی ہے۔ 5اگست 2019کے بعد سے حالات مزید بگڑ گئے ہیں۔بھارت نے عملی طور پر کشمیر کو اپنی غلام کالونی بنا دیا ہے۔یہ پورا علاقہ محصور ہے۔ جو بھی یہاں آتا ہے ۔ کشمیر کی آزادی کے لئے تڑپ لئے واپس ہوتا ہے۔ چلہانہ ٹیٹوال اور کیرن سے مقبوضہ کشمیر کی آبادی سامنے نظر آتی ہے۔

آزاد کشمیر حکومت کو وادی نیلم کے جنگلات ، جڑی بوٹیوں ، قیمتی اور انمول پتھروں سے آمدن ہوتی ہے۔ اس آمدن میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ سیاحت پر خصوصی توجہ دے کر یہاں سیاحوں کے لئے رہائش، خوراک معقول نرخوں پر فراہم کی جا سکتی ہے۔ تا کہ یہ لوگ بار بار یہاں آئیں۔ ٹورازم پولیس قائم کرنے کا فیصلہ معقول ہے۔ اس پر بھی چیک ایند بیلنس ضروری ہے۔یہ وادی ریاست کی ترقی میں سونے کے انڈے دینے والی مرغی بن سکتی ہے۔مگر اس مرغی کو ایک بار ہی زبح کر کے سارے انڈے نکالنے کی کوشش نہ کی جائے۔ سیاحوں کا استقبال، ان کے لئے معلوماتی کاؤنٹرز، علاقہ کی تاریخ،معیاری اشیاء کی معقول قیمت پر دستیابی ضروری ہے۔ علاقہ کے عوام تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ اچھے میزبان ثابت ہو سکتے ہیں۔ سیاحوں کو معزز مہمانوں کی طرح عزت دینے سے ہی یہ وادی ٹورازم کو ایک صنعت کے طور پر متعارف کرا سکتی ہے۔ یہاں کے ٹرانسپورٹرز، ہوٹل مالکان، ٹینٹ ویلجز کے منتظمین نیز ہر کوئی اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے۔ یا د رہے ،جہاں سیاحوں کو لوٹا جاتا ہے، ان کی عزت اور رہنمائی نہیں کی جاتی ، وہ علاقے خوبصورت ہونے کے باوجود سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتے ۔بلکہ ان کے بارے میں منفی تاثر عام ہوتا ہے۔
سیاحت کو منافع بخش انڈسٹری بنانا ہے تو سیاحوں کی سہولیات اور آرام کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا ہو گی۔ ٹورازم پولیس تشکیل دینے کے بعد اسے نیلم اور دیگر مقامات پر تعینات کرنے سے معقول بندوبست ہو گا۔خاکسار نے ان کالموں میں 2015میں ٹورازم پولیس کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔ پانچ سال بعدہی سہی، اس پر عمل ہوا ۔ جس کا خیر مقدم ہے۔یہاں سول انتظامیہ متحرک ہو۔ جگہ جگہ شکایات اور تجاویز بکس رکھے جائیں،ٹورازم پولیس کی کوئیک ریسپانس فورس شکایات یا تجاویزپر فوری کارروائی کرے تو مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ کوہالہ کو کشمیر قرار دے کر سیاحوں کے ساتھ مذاق نہ کرنے دیا جائے۔ اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور جیسے شہروں میں آزاد کشمیر ٹورازم محکمہ کے خصوصی کاؤنٹرز کھولنے کی ضرورت ہے۔ہوائی اڈوں، ریلوے سٹیشنوں، لاری اڈوں، اہم چوراہوں پر کاؤنٹرز نیز مری، کوہالہ، مظفر آباد اور دیگر انٹری پوائنٹس پرمتحرک ٹورسٹ سنٹرز قائم کئے جائیں۔سرکار یا سرکار کی فنڈنگ سے چلنے والے گیسٹ ہاؤسز پر سفارشی لوگوں کو قبضہنہ جمانے دیا جائے۔قومی ترقی کا جذبہ اور خلوص ہو تو ہرکام نتیجہ خیز ثابتہو گا۔

فوج کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد صدر جو بائیڈن نے کہا ہے

 یوکرین کی سرحد پر روسی فوج کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ جلد ہی مشرقی یورپ میں نیٹو فورس کی قوت میں اضافے کے لیے امریکی فوجیوں کا ایک چھوٹا دستہ روانہ کریں گے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر بائیڈن نے جمعے کو فلاڈیلفیا سے واشنگٹن واپسی پر صحافیوں کو بتایا: ’میں جلد ہی مشرقی یورپ اور نیٹو ممالک میں اپنے فوجیوں کو منتقل کروں گا۔ لیکن یہ بہت زیادہ تعداد میں نہیں ہوں گے۔‘

مغربی یورپ میں پہلے ہی امریکہ کے دسیوں ہزار فوجی تعینات ہیں تاہم پینٹاگون کشیدگی کے شکار مشرقی حصے میں کمک بھیجنے کی بات کر رہا ہے۔

رواں ہفتے محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ نیٹو کی مدد کے لیے ساڑھے آٹھ ہزار امریکی فوجی (مشرقی یورپ) میں ممکنہ تعیناتی کے لیے بالکل تیار ہیں۔

امریکی فوج کی یہ تعیناتی سیاسی طور پر بھی اتنی ہی اہم ہوگی جتنی عسکری طور پر کیوں کہ اس سے یوکرین کے تنازع میں امریکی شمولیت کو تقویت ملے گی۔

تاہم حالیہ کشیدگی کے حوالے سے یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی نے مغربی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ ان کے ملک کی سرحدوں پر روسی فوجیوں کے بڑے اجتماع پر ’گھبراہٹ‘ کا مظاہرہ نہ کریں۔
غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے یوکرین صدر کا کہنا تھا کہ : ’ہمیں اس قدر گھبراہٹ کی ضرورت نہیں ہے۔‘
یوکرینی صدر کا مزید کہنا تھا کہ: ’کئی ممالک کے معزز رہنماؤں کی طرف سے بھی ایسے بیانات سامنے آ رہے ہیں کہ گویا کل ہی جنگ چھڑ جائے گی۔ یہ گھبراہٹ کا مظاہرہ ہے۔ ہماری ریاست کو اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی؟‘

اگرچہ یوکرین نیٹو اتحاد کا رکن نہیں ہے لیکن واشنگٹن کو خدشہ ہے کہ اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو اس کے اثرات پڑوسی نیٹو ممالک تک پھیل جائیں گے۔

لیکن ماسکو کا اصرار ہے کہ اس کا سویت یونین کی سابقہ ریاست پر حملہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے لیکن کریملن سرحدوں پر ایک لاکھ سے زیادہ فوجی تعینات کر کے مغربی طاقتوں سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ یوکرین کی نیٹو اتحاد میں شمولیت روکنے کے ساتھ ساتھ اس سے دیگر مراعات سے بھی واپس لیں۔

بائیڈن نے گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں خبردار کیا تھا کہ یوکرین پر روس کا حملہ کریملن کو الٹا پڑ سکتا ہے۔

بائیڈن کے مطابق: ’ اگر وہ (روس) حقیقت میں آگے بڑھتا ہے تو ہم پولینڈ اور رومانیہ وغیرہ میں فوجیوں کی موجودگی میں اضافہ کرنے جا رہے ہیں۔ وہ نیٹو کا حصہ ہیں۔‘

موجودہ صورت حال کے تناظر میں ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں روسی صدر ولای میر پوتن اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے خطے میں کشیدگی میں کمی کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔

گو کہ نہ صدر پوتن اور نہ ہی ان کے مغربی ہم منصب ہفتوں سے جاری خطے میں دہائیوں کے اس بدترین بحران میں اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں لیکن فرانس کے صدر کے ایک معاون کے مطابق روسی صدر نے ایمانوئل میکروں سےایک گھنٹے سے زائد طویل ٹیلی فون کال کے دوران بتایا کہ ان کا ’کوئی جارحانہ منصوبہ نہیں ہے۔‘

فرانسیسی صدر کے معاون نے کہا کہ میکرون کے ساتھ بات چیت کے دوران پوتن نے ’کسی جارحانہ منصوبے کا اظہار نہیں کیا اور کہا کہ وہ فرانس اور اتحادیوں کے ساتھ بات چیت جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘

فرانسیسی صدر کے معاون نے صحافیوں کو بتایا کہ اس گفتگو میں تناؤ میں کمی کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا۔

ان کے بقول: ’پوتن نے بہت واضح طور پر کہا کہ وہ تصادم نہیں چاہتے۔‘

اسی حوالے سے روسی محکمہ دفاع کریملن نے کہا کہ صدر پوتن نے میکروں پر یہ واضح کیا کہ اس ہفتے ان کے مطالبات پر مغرب کی طرف سے تحریری ردعمل روس کی توقعات سے کم تھا۔

ٹیلی فون کال بعد کریملن سے جاری بیان کے مطابق: ’صدر پوتن نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کے ردعمل میں نیٹو میں توسیع کے عمل کو روکنے سمیت روس کے بنیادی خدشات کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ مغرب نے اس ’اہم سوال‘ کو بھی نظر انداز کر دیا ہے کہ کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کی قیمت پر اپنی سلامتی کو مضبوط نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ روس اس ردعمل کا ’بغور جائزہ لینے کے بعد مزید اقدامات کا فیصلہ کرے گا۔

پوتن اور میکرون کی فون کال اس ہفتے پیرس میں روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد ہوئی ہے جس میں فرانس اور جرمنی بھی شریک تھے

شعیب ملک نے طلاق کی افواہوں پر بالآخر خاموشی توڑ دی۔

 پاکستان کرکٹ سٹار شعیب ملک نے بالآخر اپنے اور ان کی اہلیہ، ٹینس سٹار ثانیہ مرزا کے ارد گرد پھیلی طلاق کی افواہوں پر کھل کر لوگوں سے کہا ہے ...