Wednesday, February 16, 2022

کتوں کا گوشت کس کو کھلایا...؟ Who fed the dog meat ...?

 چند دن پہلے کتے کا گوشت بیچتے ایک قصاب پکڑا گیا لیکن اس مرد کے بچے نے عدالت میں جو مؤقف اختیار کیا وہ ایک بار ضرور پڑھیں۔


سبق آموز تحریر

کچھ دِنوں پہلے ایک قصائی کُتے کا گوشت فروخت کرنے کے جُرم میں گرفتار ہوگیا.

جب اُسے جج صاحب کے سامنے پیش کیا گیا،

تو جج نے پُوچھا : کیا یہ سچ ہے کہ تُمھارے پاس سے کُتے کا گوشت پکڑا گیا ہے؟

مُلزم : جی جناب! یہ سچ ہے.

جج : تُمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اِنسانوں کو کتُوں کا گوشت کھلاتے ہو؟

مُلزم : نہیں جناب میں اِنسانوں کو کُتوں کا گوشت نہیں کِھلاتا.

جج : کیا مطلب ابھی تو تُم نے خُود اِقرار کیا؟

مُلزم : ہاں جناب میں نے اِقرار کیا کہ میرے پاس سے کُتے کا گوشت پکڑا گیا ہے، لیکن وہ گوشت میں نے کسی اِنسان کو نہیں کھلایا...

جج : تو پھر وہ گوشت کس کو کھلایا؟

ملزم : جج صاحب میں نے وہ کُتوں کا گوشت کُتوں کو ہی کھلایا...

جج : کیا مطلب؟

مُلزم : مطلب یہ ہے جج صاحب کہ میرے پاس ہمارے ضلع کے بڑے بڑے افسران ۔ سیاستدانوں کے چیلے اور مفت خورے آتے تھے اور مُفت میں چھوٹا گوشت لے کر جاتے تھے، اور نہ دینے پر جُرمانہ کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے. بکری کے آٹھ، نو کلو گوشت میں ایک دو کِلو وہ لے جاتے تھے تو مُجھے فائدے کے بجائے اُلٹا نُقصان ہوجاتا تھا. اِس لئے میں کُتا ذبح کرکے رکھتا تھا، جب وہ لوگ مُجھ سے مُفت کا گوشت لینے آتے، تو میں اُن کو وہ گوشت دے دیتا تھا.

 تمام سرکاری افسروں اور اہلکاروں کے لیے باعث شرم جو اس کام میں ملوث ہیں .

عمران خان صاحب پیٹرول سستا کرنا چاہتے ہیں - مگر کب؟

 ایک اہم پیشرفت میں، وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 12.03 روپے تک کا اضافہ کر دیا، یہ بات فنانس ڈویژن کی جانب سے منگل کو ایک نوٹیفکیشن میں بتائی گئی۔


 نئی قیمتیں 16 فروری سے لاگو ہوں گی اور مہینے کے آخر میں ان پر نظر ثانی کی جائے گی۔

پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ بتاتے ہوئے، جو تاریخ میں پہلی بار 150 روپے فی لیٹر سے تجاوز کر گئی ہے، فنانس ڈویژن نے کہا: "پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بین الاقوامی مارکیٹ میں زبردست اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور اس وقت  2014 کے بعد سے بلند ترین سطح پر۔"


 بیان میں کہا گیا ہے کہ سال کے آغاز سے قیمتوں میں اضافے کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے 31 جنوری کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا آخری جائزہ موخر کر دیا تھا تاکہ صارفین کو انتہائی ریلیف مل سکے۔


 فنانس ڈویژن نے کہا کہ حکومت نے بجٹ کے اہداف کے مقابلے میں صفر فیصد سیلز ٹیکس لگایا اور پیٹرولیم لیوی کی شرح میں کمی کی۔


 اس کے نتیجے میں، حکومت کو "موجودہ PL اور ST کی شرحوں کے بجٹ کے حساب سے تقریباً 35 بلین روپے (پندرہ ہفتہ) کا نقصان ہو رہا ہے"۔


 بیان میں کہا گیا کہ نقصانات کی روشنی میں وزیراعظم نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سفارش پر غور کیا ہے۔


Sunday, February 13, 2022

سونے کی قیمت بہت زیاده ہوگئی

 بین الاقوامی بلین مارکیٹ میں اضافے کی مناسبت سے مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت نے اپنا رجحان برقرار رکھا اور ہفتہ کو 1,150 روپے فی تولہ اضافے کے ساتھ 1,26,450 روپے فی تولہ پر بند ہوا۔


 مقامی صرافہ مارکیٹ میں سونے کی قیمت 985 روپے فی 10 گرام اضافے کے بعد 108,410 روپے تک پہنچ گئی۔  ایک روز قبل قیمتی شے 125,300 روپے فی تولہ اور 107,425 روپے فی 10 گرام پر بند ہوئی۔


 آل سندھ صراف اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن (ASSJA) کے مطابق، 12 فروری کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران، زرد دھات کی فی تولہ قیمت میں 2,250 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔   

سونے کے ڈیلرز کا خیال ہے کہ موجودہ غیر یقینی معاشی حالات نے خطرناک اشیاء سے محفوظ اشیاء کی طرف پرواز کو جنم دیا ہے کیونکہ سونا محفوظ ترین سرمایہ کاری میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔  لہذا، اس کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے کیونکہ ایک سرمایہ کاری تیز رفتاری سے ہو رہی ہے۔


 مہنگائی سے متعلق خدشات کے باعث سرمایہ کار سونے پر جارحانہ موقف اختیار کر رہے ہیں۔


 وہ سرمایہ کار جو مہنگائی کے اثرات سے بچنے کے لیے غیر ملکی کرنسیوں بالخصوص امریکی ڈالر میں پیسہ ڈالتے تھے، اب سونا خرید رہے ہیں کیونکہ حکومت اور مرکزی بینک نے غیر ملکی کرنسیوں کے حوالے سے ضابطے سخت کیے ہیں۔


 بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کی فی اونس قیمت 34 ڈالر اضافے سے 1811 ڈالر پر پہنچ گئی۔

Tuesday, February 8, 2022

مہنگائی کیسے کی جاتی ہے, اور کیوں ؟


 ایک تندور والا  تھا جو 5 روپے میں روٹی بیچتا تھا  اسے روٹی کی قیمت میں اضافہ کرنا تھا لیکن بادشاہ کی اجازت کے بغیر کوئی اس کی قیمت نہیں بڑھا  سکتا تھا۔  تو وہ بادشاہ کے پاس گیا اور کہنے لگا بادشاہ سلامت مجھے روٹی کے 10 روپے کرنے ہیں۔  بادشاہ نے کہا کہ 30 کی کر دو

 تندوری نے کہا بادشاہ سلامت اس سے شور مچے گا

 بادشاہ نے کہا اس کی فکر نہ کرو 

 میرے بادشاہ ہونے کا کیا فائدہ۔تم اپنا منافع دیکھو اور روٹی  30 ​​روپے کی کر دو

 اگلے دن اس نے روٹی کی قیمت 30 روپے کر دی، شہر میں کہرام مچ گیا لوگ  بادشاہ کے پاس پہنچے اور شکایت کی کہ  تندور والا ظلم کر رہا ہے  30 روپے کی روٹی بیچ رہا ہے  ۔ بادشاہ نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ میرے دربار میں  تندوری کو پیش کرو ،وہ جیسے ہی دربار میں پیش ہوا بادشاہ نے غصے سے کہا، تم نے مجھ سے پوچھے بغیر قیمت کیسے بڑھا دی؟ یہ رعایا میری ہے، لوگوں کو بھوکا مارنا چاہتے ہو۔  بادشاہ نے تندوری کو حکم دیا کہ تم کل سے آدھی قیمت پر روٹی بیچو گے ورنہ تمہارا سر قلم کر دیا جائے گا، بادشاہ کا حکم سن کر  عوام نے اونچی آواز میں کہا....بادشاہ سلامت زندہ باد


 اگلے دن سے 30  کے بجائے روٹی 15 میں بکنے لگی

 عوام خوش، تندوری خوش، بادشاہ بھی خوش😁

_________________

آج ایسے حالات ہیں میرے پاکستان میں

Monday, February 7, 2022

مہنگائی کا بہت بڑا وزن آرہا ہے . پاکستانیوں پر

 آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان تعمیراتی شعبے کے لیے مالیاتی اداروں کی ایمنسٹی اسکیم کنٹرول کرے، آئی ایم ایف نے بجلی کی قیمتیں بھی بڑھانےکا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالرز سے زائد کی قسط موصول ہوگئیرپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے انکم ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تیاری شروع کردی ہے، آئندہ مالی سال ایف بی آرکے لیے 1155 ارب روپےکے اضافی ٹیکس کا ہدف رکھا گیا ہے، آئندہ مالی سال کے لیے ایف بی آرٹیکس ہدف 7255 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے،پیٹرولیم لیوی کی مد میں406 ارب روپےکی وصولیوں کی تجویز ہے اور براہ راست ٹیکسوں کی مد میں 2711 ارب روپے وصولی کی تجویز دی گئی ہے۔

 آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہےکہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پرعمل درآمد مکمل کرے،  پاکستان نےمنی لانڈرنگ کے خلاف27 میں سے 26 نکات پر عمل درآمد کیا ہے، پاکستان اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دیے گئےگروپوں کے رہنماؤں کے خلاف تحقیقات کرکے سزا دلوائے۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہےکہ  پاکستان اے پی جی کی طرف سے نشاندہی کے بعد مالیاتی نظام میں خامیاں دورکرے، آئندہ مالی سال کے لیے سود ادائیگیوں کی مد میں 3523 ارب روپے کا تخمینہ ہے، اخراجات کا تخیمنہ 12ہزار994 ارب روپے اور  آمدن کا تخمینہ 10 ہزار272 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

Sunday, February 6, 2022

عمران خان کی تبدیلی کا مزہ لو

 پی ٹی آئی کے بانیان میں سلجھے ہوئے سیاستدان، سینئر وکلاء، ریٹائرڈ جج، جنرلز، بیوروکریٹس، ادیب، دانشور، معیشت دان، پروفیسرز، ڈاکٹرزودیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے منجھے ہوئے افراد شامل ہوئے۔ اور بالا شبہ پی ٹی آئی جماعت کو پاکستان کے پڑھے لکھے اور نوجوان افراد کی جماعت کہا جاتا رہا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کی کثیر نوجوانوں کی تعداد جو روایتی سیاستدانوں جیسا کہ نواز شریف، زرداری اور آمروں سے تنگ تھی وہ بھی فوج در فوج پی ٹی آئی کا حصہ بنتی گئی۔ میری نظر میں جیسے 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی اسی طرح 30 اکتوبر 2011 کو ''نیا پاکستان'' کی قرارد منظور ہوئی تھی۔جب پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین جناب عمران خان نے مینار پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے عظیم و شان جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپکا لیڈر آپ سے کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ کیونکہ اس جلسہ کے بعد وہ تحریک انصاف کہ جسکے چیرمین کو عام انتخابات میں خود اپنی نشست جیتنا بہت مشکل ہوتا تھا اور شیخ رشید جیسے منجے ہوئے سیاستدان خود عمران خان کے منہ پر انہیں ٹانگہ پارٹی کہا کرتے تھے، پھر اسی پارٹی نے کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑے کہ بالآخر اگست 2018 میں پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے مسند اقتدار پر براجمان ہوگئی۔ تبدیلی کا نعرہ بلند کرکے پی ٹی آئی نے روایتی سیاست کے جمود کو توڑا اورپاکستانیوں خصوصا نوجوانوں کی توجہ اپنے منشورکیطرف مرکوز کروائی۔ اقتدار کے حصول سے قبل پی ٹی آئی کے پاس پاکستان کے تمام سیاسی، سماجی، معاشی، جغرافیائی، معاشرتی مسائل کے حل موجود تھے، اور ان کا تذکرہ عمران خان صاحب گاہے بگاہے کرتے رہتے تھے۔ جب ڈالر 100 روپے میں ملتا تھا تو کرنسی کے اُتار چڑھاؤ میں ایک روپے کے فرق سے عمران خان صاحب پاکستانی قوم کو بتایا کرتے تھے کہ پاکستان کے اوپر قرضوں میں کتنے ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے مگر آج ڈالر 175 روپے کا ملتا ہے۔ اسکے باوجود قوم کوڈالر ریٹ بڑھنے کے فائدے گنوائے جاتے ہیں۔ اسی طرح عمران خان صاحب اپنے جلسوں اور پریس کانفرسوں میں اکثر دعوی کیا کرتے تھے کہ وہ حکومت میں آکر قرضہ لینے کی بجائے خودکشی کرنا پسند کریں گے مگرآج حکومت میں آکرسعودی عرب، آئی ایم ایف سے قرضہ مل جانے کوحکومت کا بہت بڑا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ یاد رہے نیا پاکستان کی قیادت نے پاکستانی تاریخ میں تاریخ ساز قرضے لئے ہیں اور 70 سالہ تاریخ بدل دی ہے۔ ہمیں بتایا جاتارہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ملکی قرضے اتارنے کے لئے اشیاء پر ٹیکس لگا کر مہنگائی کررہی ہے مگر 70 سالہ قرضے ایک طرف مگر نئے پاکستان کے ساڑھے 3 سالہ قرضے ایک طرف۔ نئے پاکستان میں قرضوں کا بوجھ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ چکا ہے۔ پرانے پاکستان میں جب پٹرول 68 روپے فی لیٹر ملتا تھا توپی ٹی آئی قیادت پاکستانی قوم کو بتایا کرتی تھی کہ چور ڈاکو حکومت پاکستانیوں پر ظلم کررہی ہے اور پٹرول کے ریٹس 45 روپے سے زیادہ نہیں ہونے چاہئے۔ مگر آج جب نیا پاکستان بن چکا ہے تو پٹرول 147 روپے فی لیٹر پر پہنچ کر بھی پاکستانی قوم پر یہ احسان عظیم جتلایا جاتا ہے کہ پاکستان میں 147 روپے میں ملنے والا پٹرول دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک بشمول امریکہ، برطانیہ، یورپین ممالک اور پڑوسی ملک بھارت سے ابھی بھی بہت سستا ہے۔ پرانے پاکستان میں 180 روپے فی کلوملنے والا بناسپتی گھی آج 400 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ ضروریات زندگی کی تقریبا تمام بنیادی اشیاء آٹا، گھی، چینی، چاول، دالیں، سبزیاں، فروٹس، گوشت کے ریٹس پرانے پاکستان کے ریٹس سے بہت زیادہ ہوچکے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے پرانے پاکستان سے نئے پاکستان میں ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ یاد رہے پرانے پاکستان کے حکمرانوں کو وطن عزیز میں دہشت گردی، بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ، معاشی عدم استحکام جیسے بڑے مسائل کا سامنا تھا، لیکن ان کرپٹ حکمرانوں نے ناصرف دہشت گردی کو شکست دی بلکہ گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے لئے بجلی کے میگا پراجیکٹس بھی لگائے اسکے ساتھ ملکی معیشت کو پانچ اشاریہ آٹھ کی اوسط سے ترقی بھی دلوائی مگر افسوس آج پاکستان کے معاشی حالات ہم سب کے سامنے ہیں۔ یاد رہے پرانے پاکستان میں عمران خان صاحب کے معیشت دانوں کی اک فوج حکومت ملنے کی منتظر تھی مگر جیسے ہی نیا پاکستان بنا وہ معیشت دانوں کی فوج پتا نہیں کہاں چلی گئی، وہی زرداری دور کے شوکت ترین وہی حفیظ شیخ جن کی معاشی پالسیوں کے اوپرماضی میں موجودہ وزیراعظم تنقید کے نشتر برسایا کرتے تھے آج انکی اپنی کابنیہ کے ممبر بن گئے۔ بار بار وزراء خزانہ کو تبدیل کیا جاتا ہے باربار ملک کے سب سے بڑے صوبہ کی سرکاری مشینری یعنی افسران کو تبدیل کردیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت میں ہونے والے ہر واقعہ کا ذمہ دار پرانے حکمرانوں کو قرار دیکر جان چھڑالی جاتی ہے۔ پاکستان کے 12 کروڑ عوام کے اوپر شہاز شریف کے مقابلہ میں عثمان بزدار صاحب کو وزیر اعلی لگا دیا جاتا ہے۔ جناب عمران خان صاحب سے اک چھوٹا سا سوال کہ آپ ہر وقت شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کا حوالہ دیتے رہتے ہیں، کیا آپ عثمان بزدار صاحب جیسی شخصیت کو اپنے ان اداروں کے چیف ایگزیکٹو بنانا پسند کریں گے۔ اﷲ ہی بہتر جانتے ہیں کہ عمران خان صاحب نے کن صلاحیتوں کی بناء پر عثمان بزدار صاحب کو 12 کروڑ عوام کے صوبہ پنجاب کا چیف ایگزیکٹو لگا دیا۔ بہرحال پرانے پاکستان کے کرپٹ حکمرانوں سے نفرت کرنے اور تبدیلی کا خواب دیکھنے والے متوالوں، ٹائیگرز، جوانوں سے چھوٹا سا سوال کہ موجودہ دور میں اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے بعد ''مزہ تو آرہا ہوگا تبدیلی کا؟ ''

Saturday, February 5, 2022

زندگی کا مقصد الله کی عبادت ...

 دور جدید کی حیرت انگیز ایجادات کے منفی استعمال کے باعث بہت سے مسلمان فسق و فجور میں اتنے مبتلاہوچکے کہ ان کے پاس عبادت و ذکر الٰہی کی فرصت بھی نہ رہی۔ اور اس سنگین صورتحال کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے میں رزق کی تنگی اور معاشی بد حالی عروج پر ہے، اور ہر دوسرا تیسرا شخص اخراجات پورے نہ ہونے کا شکوہ کرتا نظر آتا ہے۔ حدیث قدسی ہے خاتم النبیین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے اے آدم کے بیٹے تو میری عبادت کیلئے اپنے آپ کو فارغ کرلے میں تیرے دل کو مالداری سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی کو دور کردوں گا ، اور اگر تونے ایسا نہ کیا تو تیرے دل کو دنیا کے دھندوں سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کو دور نہ کروں گا ۔ (مسند احمد ، الترمذی ) اسی طرح صحیح ابن ماجہ میں حدیث قدسی ہے، فرمان الٰہی ہے ’’ابن آدم! تو میری عبادت کے لیے یک سو ہو جا تو میں تیرا سینہ بے نیازی سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور کر دوں گا، اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیت سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا‘‘۔ درج بالا حدیث قدسی آنکھیں کھولنے اور بصیرت حاصل کرنے کے لئے کافی ہے ۔ اس کے ذریعہ ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ عبادت اور اعمال صالحہ کو دنیاپر ترجیح دیتے ہوئے خود کو عبادت ، جو کہ مقصد تخلیق ہے اس کے لئے فارغ کرنا چاہیے۔ جو ایسا نہیں کرے گا اس کا نقصان بھی یہاں پر بتادیا گیا ہے کہ پھر اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو دنیا میں مزید الجھاکر بے پناہ مشغول کردے گا اور مال کی برکت سلب کرکے محتاجگی کے ایسے احساس میں مبتلا کردے گا کہ دولت ہوتے ہوئے ہمیشہ دولت کی کمی اور بھوک محسوس ہوگی ۔ اسی چیز کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اسطرح بیان فرمایا ’’جس شخص کی نیت اور اسکا مقصد آخرت کی طلب ہو تو اﷲ تبارک وتعالیٰ غنی ومالداری سے اس دل کو بھر دیگا اور اسکے پراگندہ حال کو درست کر دے گا اور اسکے پاس دنیا ذلیل ہوکر آئے گی اور جس کی نیت وسعی عمل دنیا طلب کرنا ہو گا تو اﷲ تعالیٰ فقر ومحتاجی کو اسکے سامنے کردیگا ،اسکے حال کو پراگندہ کردیگا اور دنیا سے اسکو اسی قدر ملے گا جس قدر اسکے لئے پہلے سے مقدر ہوچکی ہے‘‘۔ (سنن الترمذی ، مسند احمد )


قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ المنافقون آیت 9 میں حکم الٰہی ہے ’’اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اﷲ کے ذکر سے غافل نہ کردیں ، اور جو ایسا کریں وہ بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں‘‘۔ اس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہرکسی کو ہرحال میں وقت نکالنا ہوگا خواہ وہ کتنا بھی مصروف اور منہمک آدمی کیوں نہ ہو۔ ایسا کرنے سے ربّ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے اور زندگی کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ دنیا کی مختصرزندگی دراصل آخرت کی تیاری کا ایک موقع ہے ، اور جو دنیاوی مشغولیت کو ہی ترجیح دیتا ہے ، اپنی مصروفیات میں سے عبادت کے لئے خود کو فارغ نہیں کرتا ہے ایسے لوگ اﷲ تعالیٰ کے نافرمان ہیں۔ انہیں اس نافرمانی کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی ملے گی ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ربّ کی بندگی کے علاوہ کسی کو فرصت کے اوقات نصیب ہوں تو ان کو غنیمت جان کر فائدہ اٹھانا چاہیے، کیونکہ انسان کی زندگی سے وقت ختم ہوتے ہی وہ دنیا سے اٹھ جاتا ہے اور ایسی دنیا کی طرف کوچ کرجاتا ہے جہاں سے پھر لوٹ کر نہیں آنا ۔ د رکھیں کہ جوانی ، صحت ، مالداری ، فرصت اور زندگی کی بڑی اہمیت ہے چنانچہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ، صحت کو بیماری سے پہلے ، مالداری کو محتاجی سے پہلے ، فراغت کو مشغولیت سے پہلے ، اور زندگی کو موت سے پہلے‘‘ ۔

بلاشبہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے جن وانس کو محض اپنی عبادت کیلئے پیداکیا ہے باقی دنیا کی تمام چیزیں اس لیے بنائی کہ بندہ عبادت کے کام میں ان سے مدد حاصل کرے۔ انسانی زندگی کا اصل مقصد صحت بنانا ، مال جمع کرنا اور لہوو لعب نہیں ۔ اسلئے ہر بندے کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ عبادت الٰہی میں گزارے ، اسکی ساری فکر اور پوری سعی اسی مقصد کے لئے ہونی چاہیے ، جسکا فائدہ یہ ہوگا کہ اس فکر وسعی کی برکت سے اسکے تمام معاملات درست اور سارے امور قابل اطمینان رہیں گے۔ اسلام میں یہ تصور نہیں ہے کہ عبات تو اﷲ تعالیٰ کے لئے ہو اور باقی معاملات میں وہ آزاد ہے بلکہ اصل یہ ہے کہ انسان کی پوری زندگی اﷲ تعالیٰ کی عبادت ہے۔وہ سوتا اسلئے ہے تاکہ عبادت میں راحت محسوس کرے ، وہ کھاتا اسلئے ہے کہ عبادت کیلئے قوت حاصل کرے ، وہ کماتا اسلئے کہ اپنی اور اﷲ کے بندوں کی ضرورتوں اور حاجتوں کو پورا کرے ۔ لہٰذا یہ نہیں ہونا چاہیے کہ بندہ مال کمانے میں اسقدر لگ جائے کہ عبودیت کے اصل مظاہر جیسے نماز، روزہ وغیرہ میں کوتاہی ہونے لگے ، سونے کیلئے ایسے وقت کا انتخاب کرے کہ عبادت کا وقت فوت ہو جائے ، کھانے کا اسقدر رسیاہوجائے کہ فرائض کو چھوڑ دے ، ایسا ہوا تو بندے نے اپنی زندگی کے اصل مقصد کو کھودیا، اور اﷲ تعالیٰ تک پہنچنے کے صحیح راستہ سے بھٹک گیا،نتیجتاً وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہوگا ۔ کاش کہ آج کا مسلمان درج بالا فرمان الٰہی کو سمجھتا ، اور اپنے مقصد زندگی کو پہچانتا اور دنیا کی حقیقت کو جان لیتاتو اسکے تمام مسائل حل ہو جاتے ، اسکے یہاں بے اطمینانی دور اور محتاجی ختم ہو جاتی۔ اور وہ دنیا میں پر امن وپر سکون زندگی بسر کرتا۔ لیکن جس نے دنیا اپنا اصل مقصود بنالیا تو اﷲ تعالیٰ نے بھی محتاجی اور پریشانی کو اس پر مسلط کردیا اور دنیا کی طلب میں خون پسینہ ایک کردینے کے باوجود بھی اسکی محتاجی دور نہ ہوئی اور نہ ہی اسکے دنیاوی مسائل حل ہوئے ۔ پس ہمیں اپنی مقصد زندگی کو پہچاننا چاہیے، اور عبادت و ذکر الٰہی میں اپنا وقت گزارنا چاہیے تاکہ ہم دونوں جہانوں میں فلاح و کامیابی پاسکیں۔

واٹس ایپ پر خودکار جوابات کیسے مرتب کریں؟

 واٹس ایپ پر بہت سی ترکیبیں ہیں جو ایپلیکیشن کے اندر دریافت کی جائیں گی، اور جو صارفین نے دریافت کی ہیں اور فریق ثالث کی ایپلیکیشنز پر لاگو ہیں۔


 تاہم، انہیں اب بھی ایک ایسا روبوٹ تیار کرنا ہے جو خود بخود جواب دینے کے لیے تیار ہو، جو خاص طور پر اس وقت مفید ہو سکتا ہے جب ہم کام میں مصروف ہوں، یا جب ہمارے پاس اپنے اسمارٹ فونز کو کنٹرول کرنے کا امکان نہ ہو۔  تاہم، اس وقت ایک تھرڈ پارٹی ایپلی کیشن موجود ہے جو سب سے زیادہ مصروف صارفین کو مطمئن کر سکتی ہے۔


 درحقیقت، ایپلی کیشن کو "خودکار سپونڈر" کہا جاتا ہے۔  اور ہمیں ایک خودکار جواب سیٹ کرنے کی اجازت دیتا ہے، جسے متعدد بار بھیجا جا سکتا ہے اور صارف کو کتنا وقت لگے گا۔  درحقیقت، کئی جوابات ہیں جو سیٹ کیے جاسکتے ہیں، جیسے کہ "Ok"، "میں پہنچتا ہوں"، "We see them" یا یہ بھی کہ "میں ابھی اپنے راستے پر ہوں، چلو بعد میں بات کرتے ہیں"۔  اس کے علاوہ اس ایپلی کیشن میں ایک ٹائمر بھی ہے، جس کی مدد سے ہم اسے چلانے کا وقت مقرر کر سکتے ہیں۔


 واٹس ایپ پر دو ارب سے زیادہ فعال صارفین ہیں۔  درحقیقت وہ لوگ جو اس ایپلی کیشن کے مالک ہیں، وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ ان کا اپنا بیک اپ گوگل ڈرائیو کے اسٹوریج کوٹہ میں شمار نہیں ہوتا۔  ماؤنٹین ویو کے کولاسس اور مقبول کراس پلیٹ فارم فوری پیغام رسانی کی سروس کے درمیان چند سال قبل دستخط کیے گئے ایک معاہدے کا شکریہ۔  یہ ایک فائدہ ہے جو صرف اینڈرائیڈ صارفین کے لیے مخصوص ہے، کیونکہ ایپل کے پاس لامحدود بیک اپ پلان نہیں ہے۔


 کچھ افواہوں کے مطابق، اب ڈویلپر گوگل ڈرائیو پر بیک اپ کے دوران چیٹس کو منظم کرنے کے لیے ایک فنکشن کا مطالعہ کر رہے ہیں۔  عملی طور پر، آپ ایپلیکیشن کے بیک اپ سے کچھ پیغامات کو خارج کر سکتے ہیں۔  ایسا کرنے سے وہ مخصوص قسم کے پیغامات کو بیک اپ سے خارج کر دیں گے، جس سے ڈرائیو پر جگہ کی بچت ہوگی۔  اس بے راہ روی سے پتہ چلتا ہے کہ وشال مفت واٹس ایپ میں بیک اپ کو آرکائیو کرنے کے امکانات کی پیشکش کو روکنا چاہتا ہے۔  اس کے علاوہ، کچھ تصدیقیں WABetaInfowith سے آئیں گی صارفین اب صرف سرکاری اعلان کا انتظار کر رہے ہیں۔

Friday, February 4, 2022

پانی پینے کے لئے کیا پیاس لگنے کا انتظار کرنا چاہئے ؟ انتہائی اہم معلومات

 اس میں کوئی شک نہیں کہ پانی جسم کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہمارے جسم کے کل وزن کا دو تہائی حصہ پانی ہی ہوتا ہے۔ پانی جسم سے خراب عناصر کو باہر نکالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ہم پسینے، پیشاب اور سانسوں کے ذریعہ پانی جسم سے خارج کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں بے حد ضروری ہے کہ ہم جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دیں۔


 پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال انسان کو مختلف طبی امراض اور پیچیدگیوں سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔ سردی کے موسم میں پانی کے استعمال میں کمی سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ موسم سرما میں خشکی اور آب و ہوا میں نمی کم ہونے کی وجہ سے جسم کو پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔پانی کی مناسب مقدار انسان کے جسم کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ غذائیت سے بھرپور خوراک۔ڈائٹ آف دی ٹاؤن کلینک سے تعلق رکھنے والے غذائیت کے ماہر 'عبیر ابو راجیلی' سردیوں کے موسم میں خاص طور پر زیادہ پانی پینے پر زور دیتے ہیں۔تھکاوٹ، سستی اور دیگر ایسے مسائل کے باعث انسانی طبیعت اکتاہٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایسے افراد موسمی بیماریاں جیسے نزلہ زکام وغیرہ کی بھی شکایت کثرت سے کرتے ہیں جس کی عام طور پر وجہ پانی کی قلت ہوتی ہے۔ پانی کے زیادہ استعمال سے ایسے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔


 روزانہ کم از کم آٹھ گلاس پانی پینے سے جسم سے زہریلے مواد خارج ہوتے رہتے ہیں۔ اس سے خشکی کا مقابلہ بھی ہوتا ہے اور قوت مدافعت مضبوط رہتی ہے۔ نزلہ زکام اور دیگر ایسی بیماریوں سے بھی حفاظت رہتی ہے۔


 سردیوں کے موسم میں ہم پانی کی مقدار کم کر دیتے ہیں جس سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ماہرین صحت کاکہنا ہے کہ انسان کو ہر موسم میں وافر مقدار میں پانی پینا چاہیے کیونکہ یہ جسم کے لئے انتہائی مفید ہے۔اگر آپ پانی کا زیادہ استعمال کریں گے تو آپ کے گردے پیشاب کے اخراج سے صاف ہوتے رہیں گے اور بہتر طریقے سے کام کریں گے جس کی وجہ سے آپ کا جسم زہریلے مواد سے پاک رہے گا۔


 تحقیق سے  معلوم ہوا ہے کہ پانی کی کمی سے انسان چڑ چڑے پن کا شکار ہو جاتا ہے اور جو لوگ پانی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان کا موڈ اچھا  بہتر رہتا ہے۔جو لوگ اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ پانی کا استعمال کریں کیونکہ تحقیق میں یہ ثابت ہوا ہے کہ زیادہ پانی پینے سے وزن کم ہوتا ہے ۔

واٹس ایپ استعمال کرنے والوں کے لیے حیران کن چیز آگی ہے

 واٹس ایپ نے صارفین کو ایک اور خوشخبری سنادی، واٹس ایپ انتظامیہ صارفین کے لئے  نئے فیچرز متعارف کرانے کے لئےسرگرم عمل ہے، سوشل میڈیا کے اس دور میں پیغام رسانی کے لئے مختلف ایپس استعمال کی جارہی ہے، صارفین کی پڑھتی ہوئی دلچسپی کو پیش نظر رکھتے واٹس ایپ نے مزید نئے فیچر پر کام شروع کیا ہے جس کے ذریعے تصاویر اور ویڈیوز بھیجنا مزید آسان ہوگا۔


 فیس بک کی زیر ملکیت کمپنی واٹس ایپ نے صارفین کے لئے ایک اور زبردست فیچر پر کام شروع کردیا ہے۔نئے فیچر کی مدد سے صارفین   چیٹ کے دوران تازہ ترین کھینچی گئی تصاویر  یا ویڈیوز کو   آسانی سے دوسرے صارف کو بھیج سکیں گے۔ویب سائٹ واٹس ایپ بیٹا انفو  کےمطابق شروع کئے اس نئے فیچر کا نام 'NEW MEDIA PICKER'ہے۔ اس فیچر سے صارفین کو کھینچی گئی تصاویر یا ویڈیوز کو منتخب کرنے میں آسانی ہوگی جس کےبعد وہ  دوسرے صارف کو بھیج سکیں گے۔تصویر یا ویڈیوز بھیجنے کے لئےفون کی گیلری میں 2 آپشن فراہم کیے جائیں گے۔


 جس میں ایک ٹیب RECENT یعنی حالیہ تصاویر یا ویڈیوز جبکہ دوسرا GALLERY کا ٹیب ہوگا جس میں موبائل میں موجود تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہوں گی۔ نئی اپ ڈیٹ کے بعد صارفین یہ فیچر استعمال کرسکیں گے۔واضح رہے کہ یہ نیا فیچر  کسی چیٹ  کے  درمیان عام طور پر تصاویر یا ویڈیوز بھیجنے کے لئے دستیاب نہیں ہوگا بلکہ صارفین اسے اس وقت استعمال کر سکیں گے  جب وہ  ان ایپ کیمرے سے تصاویریا ویڈیوز لیں گے۔

Thursday, February 3, 2022

آج کل کے لخت جگر

 ایک 50 سال کی اماں نے اپنے بوڑھے شوھر کو آواز دی کہ

"اے جی سنئیے گا
یہ الماری کا شیشہ نھی کھل رھا"

بوڑھا باپ آگے بڑھا
اور کھولنے کی کوشش کی
لیکن زیادہ کامیاب نہ ھو سکا ،

جوان بیٹا آگے بڑھا
ذرا سا زور لگایا
آسانی سے کھل گیا

اور غصے سے بولا:

"لو جی ، یہ بھی کویی مشکل کام تھا"

باپ مسکرایا اور بولا

"بیٹا یاد ھے؟
جب تو بچہ تھا اور گھر کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا تھا
تو میں جان بوجھ کر آھستہ آھستہ
تیرے دروازے کھولنے میں اس طرح مدد کرتا تھا
کہ تو سمجھے کہ دروازہ تو نے خود کھولا ھے
تاکہ تیرے اندر اعتماد آئے ،
تیرا دل نہ ٹوٹنے پاۓ
اور تیری ھمت بڑھے"

باپ کی بات سننا تھی کہ جوان بیٹا متوجہ ھو گیا اور اسکی آنکھ سے آنسو جاری ھونا شروع ھو گئے

اسی طرح ایک دفعہ بوڑھے باپ نے بیٹے سے پوچھا

"یہ جو تو نے نئی گاڑی خریدی ھے اس کا نام کیا ھے ؟

بیٹا بولا
"ھنڈا "

چند گھنٹوں بعد بوڑھے باپ گاڑی کا نام بھول گیا
تو اس نے دوبارہ سوال کیا.

بیٹا حیران ھو کر بولا
"ابو ھنڈا هے "

رات کو سونے سے پہلے باپ نے پھر سوال کیا کہ کیا نام بتایا تھا ؟

اب تو جوان بیٹا کنٹرول نہ کر سکا
اور غصے میں بولا

"آپ کو کتنی مرتبہ بتاؤں ھنڈا ھنڈا ھنڈا ! "

باپ خاموش ھو گیا الماری سے 30 سالہ پرانی نوٹ بک نکالی اور بیٹے سے کہا

"ذرا اس کا یہ والا صفحہ تو پڑھنا "

بیٹے نے بادل ناخواستہ صفحہ پڑھنا شروع کیا جس میں لکھا تھا

"آج میری خوشی کا بہت بڑا دن ھے
کیونکہ میرے بیٹے نے پہلی دفعہ لفظ چڑیا بولا
اور مجھ سے 25 مرتبہ کہا
بابا وہ کون ھے
اور میں نے خوشی اور مسرت کے ساتھ 25 مرتبہ جواب دیا
بیٹا بولو
چڑیا چڑیا چڑیا "

جوان بیٹا حیرنگی سے ایک ایک لفظ پڑھتا جاتا
اور آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات جاری هوگئے

💐کروڑوں سلام ھوں اس ماں پر کہ
جو دسترخوان پر
جب بھی غذا کم پڑنے لگتی
سب سے پہلا بندہ جو کہتا کہ:
"مجھے تو آج بھوک ھی نھیں تھی"
وہ ھے ماں

💐حاملگی کے دوران
جب جب بچہ ماں کے پیٹ میں زور سے کہنی یا لات مارتا ،
تو خوشی سے سب کو بتاتی ،

لیکن اولاد کے پاس
آج رات کو سونے سے پہلے
اسکے پاؤں دبانے کیلئے وقت نہی

💐اے کاش کہ ایسا ممکن ھوتا کہ

"زندگی آخر سے شروع ھوتی
کہ مرتے وقت ماں کی آغوش ملتی
اور جان نکلتے ھوے
اسکی میٹھی میٹھی لوری"

💐ماں باپ جو بچوں کو خلوص عشق کے ساتھ انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ھیں

لیکن کتنی عجیب بات ھے کہ
بچے انکی ویل چئر پکڑتے ھوئے شرماتے ہیں.

💐واقعی کسی نے کیا خوب کہا ھے کہ

"ایک ماں باپ دس بچوں کو سنبھال سکتے هیں،
لیکن دس بچے ایک ماں باپ کو نھیں سنبھال سکتے."

اگر ممکن ھو تو کاپی کر کے آگے سینڈ کریں
ممکن ھے آپکی وجہ سے کسی کے دل میں ماں باپ کی عظمت میں اضافہ ھوسکے.

Wednesday, February 2, 2022

انا پرستی میں پھنسنا میرا

 آجکل جیسے ہر چیز کا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ( بیشک کوئی ادارہ اٹھا کے دیکھ لیجیے یا کسی نظام پر نظر ڈال لیجیے،ابتری اور تنزلی ہی نظرآئے گی )۔ بالکل ویسے ہی ہمارا اپنا بھی آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ اس بگاڑ کی وجہ کو شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے الفاظ میں کچھ یوں بیان کیا ہے کہ :-

خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام

شاعر مشرق علامہ اقبال نے تو یہ مصرعہ غلامی میں جکڑے مسلمانوں کے لیے کہا تھا لیکن یہ آج کے آزاد مسلمانوں پر بھی بالکل صادق آتا ہے۔ کیونکہہماری خودی ایک دفعہ پھر قریب المرگ ہو چکی ہے۔ ہماری 'میں'، جسے اقبال نے خودی کہا، انا کے بھنور میں اس قدر پھنس چکی ہے کہ اسنے صحیح اور غلط کے سارے فرق مٹا دئیے ہیں۔یہ میں ہمیں کہتی ہے کہہمیشہ میں ہی ٹھیک ہوں اور دوسرے غلط۔یہ میں کہتی ہے کہ سب کچھ میرے پاس ہونا چاہئے چاہے اس کے لیے کوئی بھی حد کیوں نہ پار کرنی پڑے۔یہ میں کہتی ہے کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے دوسروں کے آرام و سکون کا خیال رکھنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ یہ میں کہتی ہے کہ مجھے ہر میدان میں سب سے آگے ہونا ہے چاہے اس کے لیے دوسرے کو روند کے کیوں نہ جانا پڑے۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک مثال کا سہارا لیتے ہیں۔ سوچیں! صبح دفتر کے لیے دیر ہو رہی ہے، آپ جلدی سے تیار ہو کر نکلتے ہیں۔ وقت پر پہنچنے کی کوشش میں آپ ٹریفک قوانین کو بلائےطاقرکھتے ہوئے انتہائی تیزی سے منزل کی جانب رواں ہیں کہ اچانک ایکغلط ٹرن لیتے ہوئے آپ کی گاڑی دوسریگاڑی سے ٹکرا جاتی ہے. بس یہیں سے انا کا اصلکام شروع ہوتا ہے۔ آپ غصے میں گاڑی سے نکلتے ہیں۔غلطی آپکی ہے لیکن آپ اپنی غلطی کو نظرانداز کرتے ہوئے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق طوفان بدتمیزی برپا کر دیتے ہیں اور بات گالم گلوچ سے ہوتے ہوئے مار کٹائی تک پہنچ جاتی ہے۔ آپ کی 'انا' آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دے رہی کہ آپ اپنی غلطی مان کر معافی مانگ لیں۔ ہم میں سے اکثر و بیشتر کا یہی المیہ ہے کہ ہمیں اپنی غلطی ماننا اور پھر مقابل سے معافی مانگنا سوہان روح لگتا ہے۔ اس کے برعکس اپنی غلطی کو مختلف توجیہات دے کر دوسروں کے حصے میں ڈال دینا نہایت آسان۔ اسی رویے نے ہمارے اندر برداشت کے مادے کو بالکل ختم کر دیا ہے۔ ہم سے چاہے جتنی بڑی غلطی سرزد ہو جائے ہم اول تو مانیں گے نہیں لیکن اگر اپنی غلطی کا ادراک ہو جائے تو معافی مانگنے کے بجائے دوسرے کو بھی ساتھ مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ لیکن کیا ہمارے اکابرین، ہمارےصحابہ کا بھی یہی رویہ رہا ہے؟ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت طیبہ نے بھی اسی روش کا درس دیا؟خلیفہ دوم امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کون واقف نہیں۔ ایک رات آپ رضی اللہ عنہ مدینہ کی گھاٹیوں میں گشت کر رہے تھے کہ ایک گھر سے کسی کی بیہودہ الفاظ کے ساتھ گانے کی آواز آئی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فورا گھر کی دیوار پھلانگی اور فرمایا: اے خدا کے دشمن! تیرا کیا خیال ہے کیا تیرا گناہ خدا تعالٰی سے چھپ سکتا ہے؟ اس آدمی نے کہا: امیرالمومنین جلدی نہ کیجئے! اگر میں نے اللہ تعالٰی کی ایک نافرمانی کی ہے تو آپ نے تین نافرمانیاں کی ہیں۔ ایک تو آپ نے ٹوہ لگائی جبکہ ارشاد باری ہے " ٹوہ مت لگاؤ(الحجرات :١٢) " دوسرا آپ دیوار پھلانگ کے آئے جبکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا "گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ(البقرة :١٨٩) " اور تیسری نافرمانی آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کی کہ آپ بلااجازت گھر میں داخل ہوئے جبکہ ارشاد ربانی ہے"کسی کے گھر طلب اجازت کے بغیر داخل نہ ہو اور ان کو سلام کرو( النور : ٣٩) " ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا میرے ساتھ نیکی کرو گے اگر تم مجھے معاف کر دو؟ اس آدمی نے کہا کہ ہاں میں معاف کرتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس آدمی کو چھوڑ دیا اور وہاں سے چلے گئے (بحوالہ کتاب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ١٠٠ قصے، مؤلف شیخ محمد صدیق منشاوی، مترجم مولانا خالد محمود صاحب )۔

سوچ کے دائرے کو تھوڑا اور وسیع کیجئے اور سوچیں! کیا کوئی ایسا ہے جس نے آپ کے ساتھ کبھی کچھ برا کیا ہو۔ لازمی ہو گا، اگر کبھی وہ آپ کے سامنے آ جائے اور آپ کے پاس پورا اختیار اور طاقت ہو اس سے انتقام لینے کا تو آپ کیا کریں گے؟وہ آپ سے اظہار ندامت کر رہا ہے تو کیا آپ اسے معاف کریں گے؟ ہم میں سے بہت کم ایسے لوگ ہیں جو معاف کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ بلکہ ہمارا حال تو یہ ہو چکا ہے کہ ہم نے معافی کو بزدلی کا نام دے دیا ہے۔ معاف کرنا تو صفت الہی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے فرمایا " (مظلوم ہونے کی صورت میں اگرچہ تم کو بدگوئی کا حق ہے )لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی اختیار کئے جاؤ ہا کم از کم برائی سے درگزر کرو تو اللہ کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے حالانکہ سزا دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے (سورة النساء :١٤٩) "۔ اللہ تعالٰی نے اس ایک آیت میں ہمیں زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ بتا دیا لیکن! ہم کیا کر رہے ہیں؟ فتح مکہ کی مثال تو ہم سب کے سامنے ہے۔اس کے لیے تو کسی حوالے کی ضرورت نہیں۔ کیسے کیسے لوگ اس دن معاف کئے گئے۔ کیا اس دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنا بدلہ لینے پر قادر نہیں تھے؟ کیا اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کو اس لیے معاف کیا کیونکہ وہ نعوذ باللہ بزدل تھے؟ نہیں! ان ستم گروں کو پورے طاقت اور اختیار کے باوجود معاف کیا گیا. تو ہم جو ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں کیوں نہیں معاف کرتے۔ ہر وقت بدلہ اور انتقام کی آگ میں جلتے موقع کی تاک میں کیوں رہتے ہیں۔اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں کئی جگہ برائی کو بھلائی سے رفع کرنے کی تلقین کی ہے۔ لیکن ہماری انا نے چھوٹی چھوٹی باتوں کو سبب بنا کے ہمیں اپنے پیاروں سے بھی اس قدر دور کر دیا ہے کہ ہم ان کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں۔ سوچیں! ہماری کتنی رنجشیں، تلخیاں اور ناراضگی صرف ہماری ایکپہل سے ختم ہو سکتی ہیں ۔ لیکن ہم ' آج کل تو بھلائی کا زمانہ ہی نہیں 'کہہ کر خود کو بری الذمہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔

یہ توہماری انا کے بگاڑ کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ مگر یہی چھوٹی چھوٹی باتیں بڑے مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ کوئی پھی پیدائشی مجرم نہیں ہوتا۔ یہ انا کے بھڑکتے شعلے ہی ہیں جو اسے سب جھلسا دینے پر ابھارتے ہیں۔ سوچیں!اگر ہم معاف کرنا سیکھ لیں تو انتقام کی آگ میں پنپتے کتنےجذبے دم توڑ جائیں گے۔اگر ہم اپنی غلطی ماننا سیکھ لیں تو بہت سی غلطیوں کے قدم تو ہم خود روک دیں گے کیونکہ تب ہمیں پتہ ہو گا کہ ہم اپنی غلطی کے جواب دہ ہیں۔ اور جب ہم اپنی غلطی کے جواب دہ ہونے لگ گئے تو رشوت، سفارش، غبن اور قتل جیسے گناہ خودبخود دم توڑنے لگیں گے۔لیکن ہم اپنی انا کے دھاگوں میں اس قدر الجھ کے رہ گئے ہیں کہ ہم صرف دوسروں کو جوابدہ سمجھتے ہیں۔یہ انا ہمارے وجود میں اسقدر سرائیت کر چکی ہے کہ ہماپنی اقدار، اپنی روایات بھولتے جا رہے ہیں۔ ہمیں اپنی انا کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ہمیں دوسروں کا احتساب کرنے کے بجائے خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ہمیں عمل کی ضرورت ہے۔ ہمیں خود سے آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی میں، اپنی خودی کو انا کے بھنور سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ یقین مانیں! اگر ہم سب اپنی غلطی ماننا، معافی مانگنا اور معاف کرنا سیکھ لیں تو ہمارے بہت سے بگڑے کام سنور جائیں گے۔ ورنہ جس بگاڑ کا شکار ہمارا یہ معاشرہ ہو چکا ہے انا کی یہ الجھنیں اسے ختم کرنے میں دیر نہیں لگائیں گی۔

Tuesday, February 1, 2022

منافع خور کتنا ظالم اور دشمن ہمارا

 ہمارے ہاں چور بازاری تو عام سی بات ہے ہم گاہکوں کے کپڑے بھی اتار نے کی کوشش کرتے ہیں خو ش قسمتی سے اگر کوئی بچ جائے تو یہ اسکا نصیب آپ کسی رہڑی یا تھلے والے سے کوئی چیز پھل وغیرہ خریدتے ہیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ بھی ہوگا کہ گھر جاکر جب تھیلا کھولتے ہیں تو اس میں سے گلا سڑا پھل بھی نکل آتا ہے اس سے تھوڑا سا اوپر چلیں تو پیٹرول پمپ والے اپنا میٹر اپنی مرضی سے چلاتے ہیں آپ رکشہ میں بیٹھیں تو کرایہ آپ کی سوچ سے ڈب مانگیں گے بس میں سوار ہونے لگیں گے تو بس کنڈیکٹر اور ہیلپر آپ کے کپڑے بھی پھاڑ دیگا اگر آپ اسکی بس میں نہ بیٹھیں گے کھانے والے ہوٹل پر چلے جائیں وہاں آپ کو چربی والے گھی سے تیار کیا ہوا سالن ملے گا اور کیمیکل والی پتی سے تیار ہونے والی مزیدار چائے پیش کی جائیگی اگر کوئی تہوار آگیا تو پھر اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنا شروع کردیگی دوکانداروں کو اگر علم ہوجائے کہ فلاں چیز کی قلت پیدا ہوگئی ہے تو وہ اسے چھپانے کا کام شروع کردیں گے اور پھر اپنی مرضی کی قیمت وصول کرینگے آپ موٹر وے پر سفر کررہے ہیں تو وہاں پر بھی قیمتیں وہ اپنی مرضی سے وصول کرتے ہیں ابھی ابھی کچھ دن قبل سانحہ مری بھی ہوگذرا ہے وہاں کے ہوٹلوں کی لوٹ مار کے قصے بھی سنے ہونگے بہت سے دوست خود یہ سارے حالات بھگت کر آئے ہیں اور الزام حکومت پر آتا ہے ہم تو وہ لوگ ہیں جو مرنے والوں کے ہاتھ اور کان کاٹ کر انکے زیور چوری کرلیتے ہیں ساہیوال کے قریب اور سندھ میں ہونے والا ٹرین حادثہ بھی یاد ہوگا جہاں لٹیروں نے ہلاک ہونے والی خواتین کے کنگن اور بالیاں اتارنے کے لیے انکے جسم کاٹ ڈالے تھے حکومت چند ایک افراد کو تو سیدھا کرسکتی ہے جہاں پر آوے کا آوا ہی بگڑا ہو وہاں پر گرفتاریاں اور پکڑ دھکڑ بھی کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ ان چوروں کو بچانے والے بڑے ڈاکو میدان میں نکل آتے ہیں ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں انہیں موقع ملتا ہے واردات ڈالنے میں وقت نہیں لگاتے آ پ رمضان المبارک کے دنوں میں اشیائے خردونوش کی قیمتیں چیک کریں اور اب نارمل حالات میں دیکھ لیں ہر مسلمان کھجور سے روزہ کھولنا سنت اور ثواب سمجھتا ہے مگر منافع خور ان مبارک ایام میں کھجور کی قیمتیں بھی کئی گنا بڑھا دیتے ہیں ان منافع خوروں کو قابو کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے ایک آرڈیننس پاس کیا ہے امید ہے کہ اس سے پنجاب میں اشیاء خوردونوش پر ناجائز منافع خوری کرنیوالوں کیخلاف شکنجہ مزید سخت ہو گا اور اس سلسلہ میں گورنر چودھری سرور نے منافع خوروں کیخلاف ایکشن کیلئے ترامیمی آرڈننس پر دستخط کر دیئے جسکے مطابق وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی زیر نگرانی 12 رکنی پر ائس کنٹرول کونسل تشکیل دی جائے گی پرائس کنٹرول کونسل میں 4 صوبائی وزراء ، چیف سیکرٹری اور دیگر افسران بھی شامل ہونگے وزیر برائے انڈسٹری، وزیر بر ائے لائیوسٹاک، وزیر خوراک اور ایگری کلچر کونسل کے رکن ہوں گے پرائس کنٹرول کونسل سپیشل مجسٹریٹ اور دیگر حکومتی افسران کی کارکردگی کو بھی مانٹیر کر یگی پاس ہونے والے اس نئے ایکٹ کے تحت ذخیرہ اندوزوں کو ایک ماہ سے ایک سال تک سزا، ایک ہزار سے 1 لاکھ روپے تک جر مانہ ہوگا۔ دوبارہ منافع خوری کے جرم پر کم از کم ایک سال سز اور کم ازکم 1 لاکھ روپے جر مانہ کیا جائے گا ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کر نیوالے عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں کیونکہ یہ افراد نہ صرف معصوم بچوں کے دودھ میں ملاوٹ کرتے ہیں بلکہ کیمیکل سے تیار کیا ہوا دودھ دھڑلے سے فروخت کرتے ہیں اس وقت لاہور میں دودھ فروخت کرنے والی سینکڑوں دوکانیں ہیں جن میں سے اکثریت کے پاس کوئی فارم ہاؤس ہے اور نہ ہی کوئی بھینس اسکے باوجود 24گھنٹے دودھ دستیاب ہوتا ہے مجھے یاد ہے شروع شروع میں جب فوڈ اتھارٹی کی بہت ہی فعال عائشہ ممتاز نے ان نوس بازوں کو پکڑنا شروع کیا تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم ہر چیز ہی دو نمبر نہیں بلکہ اس سے اگلے نمبروں والی استعمال کرتے رہے یہاں تک کہ بکرے کے گوشت کی بجائے کتے اور گدھے بھی کھلائے جاتے رہے اور ہر روز منوں کے حساب سے دودھ ضائع کیا جاتا تھا جو کھاد ،صرف اور آئل سے تیار کیا جاتا تھا چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں والے تو ہمیں نہ جانے کیا کیا کھلاتے رہے بڑے ہوٹل بھی عائشہ ممتاز کی نظروں سے نہ بچ پائے گندگی اور صفائی نہ ہونے سے مال روڈ پر واقع ہوٹلوں کے کچن بھی سیل ہوئے بلکہ جن بیکریوں سے ہم صبح ناشتے کا سامان لیکر جاتے ہیں جب انکا کچہ چٹھا کھلا تو معلوم ہوا سبھی گندے انڈے یہاں تک کہ اندوں میں پیدا ہونے والے بچے بھی انہی بیکری کی اشیاء میں استعمال ہوتے رہے بلکہ آپ کو یاد ہوگا ہے پی آئی سی لاہور میں جعلی ادویات سے کئی افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے ہم انسانی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے سے بھی باز نہیں آتے میں سمجھتا ہوں کہ ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف جتنا بھی گھیرا تنگ کیا جائے کم ہے یہ نہ صرف ہماری نوجوان نسل اور معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں بلکہ انہیں بزرگوں کے بڑھاپے کے ساتھ بھی کھیلتے ہیں پیسے کمانے کی ہوس میں ہم ہر وہ چیز بیچ رہے ہیں جو مضر صحت ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کو بھی مفلوج اور اپاہج بناسکتی ہے وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی نگرانی میں قائم ہونے والی اس کمیٹی میں مزید افراد کو بھی شامل ہونا چاہیے تاکہ اس کار خیر میں سبھی اپنا اپنا حصہ ضرور ڈالیں یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے جو تب ہی بچ پائے گا اگر ہم نے اپنا آج درست کرلیا اس لیے آج کو محفوظ بنانے کے لیے کچھ تلخ فیصلے کرنا بہت ضروری ہیں کیونکہ منافع خور دشمن ہے ہمارا ۔


شعیب ملک نے طلاق کی افواہوں پر بالآخر خاموشی توڑ دی۔

 پاکستان کرکٹ سٹار شعیب ملک نے بالآخر اپنے اور ان کی اہلیہ، ٹینس سٹار ثانیہ مرزا کے ارد گرد پھیلی طلاق کی افواہوں پر کھل کر لوگوں سے کہا ہے ...